ایم کیو ایم کا جھنڈا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اْس پر کوئی علامت بنانے کی بجائے ایک لفظ لکھا گیا: ’’مہاجر‘‘ لیکن جب آفاق احمد نے بغاوت کر کے اپنا دھڑا علیحدہ کر لیااور اپنی شناخت کے لیے اْسی جھنڈے کو منتخب کیاتو الطاف حسین کے جذبۂ محبت نے ایک بار پھر جوش مارا اور اْن کی خواہش پر ایم کیو ایم کے جھنڈے پر اپنا نام لکھنے کا حکم دیا۔یوں ایک نیا عالمی ریکارڈ وجود میں آیا اورایم کیو ایم اپنے جھنڈے پر بانی کا نام رقم کرنے والی دنیا کی پہلی سیاسی جماعت بن گئی۔
پیر صاحب نے اس زمانے میں کسی کام کو عار نہیں جانا حتیٰ کہ ماڈلنگ کو بھی عزت بخشی۔ ماڈلنگ کے لیے بنا ئی گئی تصویروںمیں وہ اکثر سوٹ اور ٹائی میں مسکراتے ہوئے نظر آتے،ان تصویروں کے لیے ’’ مسٹر مہاجر‘‘ کا عنوان منتخب کیا گیا۔یہ الفاظ تصویر کے آخر یعنی مسٹر مہاجر کے پائوںکے بالکل نیچے درج کیے جاتے۔الطاف حسین کی سیاست کے اس کلیدی لفظ کے لیے جگہ کا انتخاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ وہ اپنی تقریر میں اس لفظ کی مذہبی تقدیس کا ذکر کرکے اپنے مہاجر فلسفے کی حقانیت کا اظہار کیا کرتے۔ اس طرح کی ایک شان دار تصویر کراچی میں طارق روڈ کے ایک پرانے شاپنگ مال گلیمر ون کے صدر دروازے پر مدتوں نظر آتی رہی۔
ایم کیوایم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی، بلدیہ اعلیٰ حیدر آباد، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرلی تو عمومی تاثر یہی تھا کہ الطاف حسین اب شہری سندھ کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں لیکن اقتدار کی طاقت بھی ان کی’’ منکسر مزاجی‘‘ پر اثرا نداز نہ ہوسکی۔یہی وجہ تھی کہ اگروہ کسی سے ناراض بھی ہوئے تو انتقام لینے کی بہ جائے معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔روایت ہے کہ ایسے مواقع پر وہ ایک شان بے نیاز ی کے ساتھ کہا کرتے کہ اللہ کی امانت ہے اللہ کے سپرد۔کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس ’’نیک دل‘‘ بندے کی خواہش کا پاس کرتے اور اپنی امانت کو اپنے پاس بلانے میں تاخیر نہ کرتے۔
مہاجروں کے مسلمہ قائد اور ترجمان کی حیثیت سے تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی انھوں نے ہمیشہ سرپرستی کی، چناں چہ نائن زیرو پر اکثر ثقافتی تقاریب برپا ہواکرتیں جن میں مشاعرے بھی شامل تھے۔ ایک مشاعرے میں جس کی صدارت الطاف حسین خود کررہے تھے،اپنے خطاب میں انھوں نے علامہ اقبالؒ کے علم و دانش اور مقام و منصب کے بارے میں نہایت سنگین نوعیت کے ’’علمی‘‘ سوالات اٹھائے ، مشاعرے میں شریک ایک نابکار شاعر جن کی تاب نہ لاسکا۔ اس نے قریب بیٹھے کسی دوسرے شاعر کے کان میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو الطاف حسین کے شایان شان نہ تھی۔ پیر صاحب تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ کارکنانِ ’’قضاو قدر‘‘ نے اسے مشاعرے کی اسٹیج سے فوراً ہی اتار پھینکا، قریب تھاکہ اللہ کی’’ امانت ‘‘اس کے سپرد ہوجاتی مگر عبید اللہ علیم بیچ میںآگئے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا،ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ ان کی اس کرامت کے چشم دید گواہ بن جاتے مگرکیا کیجئے کہ اللہ کو یہ منظور نہ تھا۔
ان کے مخالفین ایک نعرے کا ذکر اکثرتنقیدی انداز میں کیاکرتے ہیں جس میں منزل کی بجائے رہنما کے حصول کی آرزو کی گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس نعرے کا اصل سبب وہ ناکامیاں تھیں جو اس جماعت کے حصے میں آئیں۔ یہ جماعت کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور محصور پاکستانیوں کی پاکستان واپسی کے نعرے پر وجود میں آئی تھی،اسی کے زورپر اقتدار کے ایوانوں تک بار بار پہنچی لیکن نہ کوٹہ سسٹم اپنے انجام کو پہنچا اور نہ محصورین کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔بلاشبہ یہ ایک ناکامی ہے مگرلوگ اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیتے۔الطاف حسین جیسے طاقت ور سیاست داں کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف یا پھر جنرل پرویز مشرف سے کہہ کر چشم زدن میں یہ مسائل حل کرا لیتے لیکن اس کے نتیجے میں پرانے سندھی اور خاص طور پر سندھی قوم پرست آزردہ خاطر ہوتے لیکن دل شکنی ان کا مشرب نہیں۔ ویسے بھی اب وہ کسی خاص قومیت سے دست بردار ہو کرمتحدہ قومیت کے علم بردار بن چکے تھے۔متحدہ قومیت کی بات کرنا اور دوسری قومیتوں کو دکھ پہنچانا ، یہ کوئی اچھی بات ہوتی؟لوگوں کی دل جوئی کے معاملے میں الطاف حسین اپنے پیش رو سیاست دانوں اورحکمرانوں سے کہیں آگے تھے۔ بھٹو صاحب نے آئین میں کوٹہ سسٹم کو دس برس کے لیے تحفظ دیا، جنرل ضیاالحق اس میں صرف دس برس کی توسیع کرسکے لیکن الطاف حسین کی وسیع القلبی دیکھئے، انھوں نے بہ یک وقت بیس برس توسیع کی سفارش کی اوراپنے ’’مقصد‘‘ میں کامیاب رہے، اس کے باوجودکوئی انھیں تنگ نظر قراردیتا ہے تو یہ اس کااپنا ظرف ہے۔روزمرہ کی سیاست اور تنظیم کی تھکا دینے والی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اصلاح ِمعاشرہ کا عظیم مقصد ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔
80ء کی دہائی کے دوران ملک کے مختلف حصوں ،خاص طور پر کراچی میں ڈبو کا کھیل بہت مقبول ہوا۔شہر کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں گلی کوچوں میں ڈبو کی میزیں نہ سجتیں ، الطاف حسین نے اس معاشرتی ’’برائی‘‘ کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریروں میں ڈبو کے آزمودہ کار کھلاڑیوں کی طرح مٹھی گھما گھما کر اس کی مذمت کی۔دیکھتے ہی دیکھتے ڈبو شاپش بند ہونے لگیں ،مخالفین نے کہا کہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ اس الزام میں کچھ صداقت بھی ہو گی مگربڑے مقاصد کے لیے چھوٹی چھوٹی ’’قربانیاں‘‘ تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ الطاف حسین نے ڈبو کی دکانیں بند کرائیں تو نوجوان اس’’ فضول‘‘ مشغلے کو چھوڑ کر زیادہ’’ بہتر‘‘ مشاغل کی طرف متوجہ ہوئے اورکراچی کے لوگوں نے ہلالی خنجر کو اپنی آنکھوں سے اس شہر کا’ ’ قومی نشان‘‘ بنتے دیکھا۔
الطاف حسین چین سموکرتھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے سیگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی کیوں کہ اپنی صحت سے زیادہ انھیں قوم کی صحت عزیز تھی۔ شہر اس زہر کے دھویں سے’’ پاک‘‘ ہوگیا، پان بیڑی فروخت کرنے والے ٹھیلے اور دکانیں ویران ہوگئیں۔ شہر’’قائد‘‘ میں رونما ہونے والا یہ واقعہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا لیکن بدخواہوں نے اس میں بھی مین میخ نکالی ، کہا گیا کہ اس کے پس پشت کئی ناگفتنی کہانیاں تھیں،کچھ ایسے معاملات جن کے سدباب کے لیے اس صنعت کے لوگوںکو بھی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔بات یہ ہے کہ لوگ تصویر کا تاریک پہلو ہی دیکھتے ہیں ، یہ نہیں سوچتے کہ اس شرمیں بھی خیر کے کئی پہلو پوشیدہ تھے۔یہ الطاف حسین کی سیگریٹ نوشی کے خلاف مہم ہی کا صدقہ ہے کہ آج ہزاروں لوگ اس کے نتیجے میں جنم لینے والے اداروں سے رزق پاتے ہیں او ر انھیں دعا دیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ الطاف حسین اپنی وضع کے درویش اور بے ریا صوفی تھے جنھوں نے اپنی ذات حتیٰ کہ نیک نامی کو بھی دائو پر لگا کر اللہ کی مخلوق کو فیض پہنچایا۔ اپنے ان ہی’’اوصاف حمیدہ ‘‘کے باوصف انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا،باقی اللہ علیم وخبیر ہے۔ (ختم شد)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024