دربار صاحب کرتار پور پر مال و دولت کی برسات ہورہی ہے۔ برطانوی سکھ تاجروں نے پاکستان میں گوردواروں کی بحالی کیلئے 500 ملین پونڈ عطیہ دینے کا اعلان کیا ہے ،یہ رقم 96 ارب روپے کے مساوی ہو گی لیکن پاکستانی حکام کو کڑی نگاہ رکھنا ہوگی کہ ان عطیات کی آڑ میں بھارتی دہشت گرد اور تخریب کار پاکستان میں نہ گھس سکیں جو کہ موذی مودی کے مشیر دہشت گرد اجیت کمار کی زندگی کا مشن ہے ۔دربار صاحب کرتارپور اتنا اہم کیوں ہے یہ مقدس ترین مقام کیسے قرار پایا، جہاں بابا جی گورونانک دیو مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری 18سال بسر کیے ۔توحید پر مبنی اللہ کاکلام پھیلایا اورکھیتی باڑی کی۔
سکھ مذہب کو موجودہ صورت میں متشکل کرنے کے لئے 10 گورئووں نے لازوال اور عظیم قربانیاں دیں جبکہ دسویں اور آخری گورو گو بند جی مہاراج نے بابا جی گورو نانک کی تعلیمات پر مبنی مذہبی کتاب‘‘گورو گرنتھ صاحب’’ کو ہمیشہ کے لئے زندہ گورو قرار دیتے ہوئے انسانی گورئووں کے تقرر کاسلسلہ بند کردیا تھا سکھوں کی انفرادیت کیلئے 5 کیس لازمی قرار دے دئیے۔
بابا جی کے انتقال تک سکھ مذہب موجودہ صورت میں موجود نہیں تھا نہ ہی ان کے عقیدت مندسکھ کہلاتے تھے ۔باباجی گورونانک نے آخری سانسیں اسی مقام دربار صاحب کرتار پور صاحب پر لیں جس کے بعد باباجی گورونانک کی مذہبی شناخت کے بارے میں جھگڑا اُٹھ کھڑاہو۔باباجی کے مسلمان عقیدت مند انہیں مسلمان ولی اللہ قرار دے کر دفن کرنے پر اصرار کررہے تھے جبکہ ان ہندوعقیدت مند گورونانک مہاراج کا انتم سنسکار کرنا (جلانا) چاہتے تھے، اسی تنازعے کے دوران توجہ دلانے پر جب ان کی نعش کو دیکھا گیا تو وہ غائب تھی، ان کے جسم کی جگہ مہکتے گلاب موجودتھے۔ان گلابوں کو تقسیم کرکے مسلمان عقیدت مندوں نے اپنے حصے کے گلاب دفنائے جہاں باباجی گورونانک دیو کا مزار مبارک موجود ہے۔
ہندوعقیدت مندوں نے اپنے حصے کے گلاب نذرآتش کیے اور ان کے مزار کے سامنے ان کی سمادھی بھی موجود ہے۔ مسلمان زائرین باباجی گورونانک کی قبر پر حاضری دیتے ہیں اورفاتحہ اور درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں، سکھ عقیدت مند اپنے عقائد کے مطابق نذرنیاز کرتے ہیں۔ اب دربار صاحب کرتارپور کی راہداری کھلنے کے بعد سکھ زائرین کی دلی اْمنگیں پوری ہورہی ہیں جو ساری دنیا میں رورو کرارداس کرتے تھے کہ "وچھڑیاں گوردواریاں نوں ملا'سانوں درشن دیدار کرا"۔دربار صاحب کرتارپور میں بابا جی گورونانک کی آخری آرام گاہیں مزار اور سمادھی کی صورت میں موجود ہیں۔
ساری دنیا میں بکھرے ہوئے سکھ یاتری جب بھی بھارت کا رخ کرتے ہیں تو دربار صاحب کرتارپورماتھا ٹیکنا ان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔پاکستان اوربھارت میں گوردواروں کے انتظام وانصرام چلانے کے لیے الگ الگ دو ادارے کام کررہے ہیں شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی (LGPC)بھارت کی امیرترین تنظیم ہے۔ 25ارب بھارتی روپے سالانہ بجٹ ہے جو مکمل طورپر سکھ برادری کے کنٹرول میں ہوتا ہے جبکہ اس کی مجموعی آمدن 50سے 60ارب روپے ہے۔عالمی سکھ برادری بھارت سے شدید ناپسندیدگی کے باوجود15 سے 20 ارب روپے کے چڑھاوے چڑھاتی ہے۔
1984 میں گولڈن ٹمپل میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے خلاف "آپریشن بلیو سٹار"کے بعد عالمی سکھ برادری کی نوجوان نسل بھارت سے شدید نفرت کرتی ہے چونکہ(SGPC)کا جھکائوبھارت سرکارکی طرف ہوتاہے اس لئے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارتی سکھ برادری پاکستانی گوردواروں کی دیکھ بھال کے لیے اربوں روپے کے عطیات اکٹھے کرتی ہے جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور ‘‘را’’ اپنے کارندوں کو گودواروں کی سیوا کی آڑمیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی ہے جودہشت گردی اورتخریب کاری سمیت پاکستان جرائم میں شریک ہیں۔
جاسوسی کے اس مکروہ کھیل میں بہت سے ایجنٹ گرفتارہوئے ایک کیس بابے امریک سنگھ کا تھا جس پر لوکل فنڈنگ 'منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں پر گرفتار کرکے واپس بھارت بھجوادیا گیا۔ بھارت میں گوردواروں میں پاکستانی گوردواروں کی دیکھ بھال کے لیے الگ صندوقچے رکھے گئے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ یہ رقم پاکستان میں خرچ کی جائے گی۔وزیراعظم مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈؤل کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے جس نے پاکستان میں آبی ذخائر’ ڈیموں کی تعمیر رکوانے کے لئے 450 ملین ڈالر کافنڈ بنوایا ہے جس کا بنیادی مصرف پاکستان میں آبی ذخائر کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔یہی زہریلا اجیت کمار ڈؤل کے پاکستان میں گور دواروں کی سیوا کی آڑ میں تخریب کاروں اور دشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی سردار پرم جیت سنگھ سرنا سے اجیت کمار ڈؤل کی گہری دوستی کی کہانیاں سرحد کے دونوں اطراف پھیلی ہو ئی ہیں۔ سردار سرنا’ کار سیوا کے لئے پاکستان میں قیام کے لئے طویل المدت ویزے لگواتے رہے ہیں۔ بیش قیمت تحائف کے لئے معروف رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں لیفٹینٹ جنرل جاوید اقبال اعوان کو عمر قید با مشقت جبکہ برگیڈئیر راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم تارڑ کو جاسوسی کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم جاری کیاگیا ہے اس تناظر میں قومی سلامتی کے اداروں کے افسران اور اہلکاروں پر کڑی نگاہ اور احتساب ناگزیر ہو گیا ہے۔ خاص طور پر اجیت کمار ڈؤل کے نیٹ ورک سے تعلقات رکھنے والوں کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024