جمعۃ المبارک‘ 10؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 14؍ جون 2019ء
مودی کا یوٹرن ۔ پاکستانی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کا اعلان
یہ تو بڑی بے مروتی والی بات ہے۔ ہماری حکومت نے بھارتی درخواست کو شرف باریابی بخشا اور مودی کو بشکیک جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت اور بھارتی وزیر اعظم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے۔ مگر افسوس ہماری تمام تر محبت اور خلو ص کے جواب میں اب ہمارے ضدی پڑوسی نے اجازت ملنے کے بعد اپنا خبث باطن یوں ظاہر کیا کہ یہ فضائی روٹ استعمال کرنے سے انکار کر دیا یوں اب…؎
وہ مجھ سے اور نالاں ہو گیا ہے
میرے تعویز الٹے پڑ گئے ہیں
والی حالت سامنے ہے۔ سب جانتے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کبھی ہمیں سکون اور چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا۔ ہماری محبت کے جواب میں انہوں نے ہمیشہ نفرت کو فروغ دیا۔ اب ہماری حکومت کو بھی جان لینا چاہئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ انہیں (بھارتی حکومت کو) ہر فورم میں گریبان سے پکڑنا ہو گا تاکہ وہ ہماری دوستی کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھنے لگیں۔ شنگھائی کانفرنس میں اُمید تو نہیں کہ مودی اور عمران خان میں ملاقات ہو۔ اگر آمنا سامنا بھی ہو تو مودی کی چڑ یعنی کشمیر کا تذکرہ ہر ممکن طور پر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی انداز میں ضرور کیا جائے پھر دیکھیں ان کا حال کیا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
الطاف حسین نے لندن پولیس کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا
آج تک دعوتی اجتماعات میں یہ پراپیگنڈہ تو بہت سنتے آئے ہیں کہ گونگا بول اٹھا۔ اندھا دیکھنے لگا۔ لنگڑا چلنے لگا۔ مگر افسوس برطانوی پولیس میں ان کراماتی اعلانات کے برعکس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہاں تو طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرنے والا باتونی مسخرہ مٹک مٹک کر گانے سنانے والا بے سرا ، جھوٹ موٹھ رونے کی اداکاری کرنے والا بہروپیا یکدم دوران تفتیش گونگا ہو گیا۔ دماغی طور پر کمزور لوگوں کی طرح اسے صرف یہ یاد رہ گیا کہ اس کا نام کیا ہے پیدا کب ہوا تھا اور گھر کا پتہ کیا ہے۔ برطانوی پولیس 2 گھنٹے ملزم الطاف حسین سے پوچھ گچھ کرتی رہی مگر وہ اپنے وکیلوں کے مشورے پر چپ چاپ دم سادھے رہا۔ ان کے وکیل زیادہ خوش نہ ہوں ان کا موکل بڑا کائیاں ہے۔ یاد رکھیں کسی کیس میں ایسے ہی وکیل نے ملزم کو مشورہ دیا تھا خاموش رہنا جیسے گونگے بہرے ہو۔ جب ملزم کیس سے بری ہو گیا تو وکیل نے اس سے اپنی فیس طلب کی تو اس کے جواب میں ملزم نے اشارے سے کہا وہ تو اب سننے اور بولنے سے محروم ہے۔کہیں یہی حال ان وکیلوں کا بھی نہ ہو جو الطاف حسین کا کیس لڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی ان کی پارٹی میں عرفیت پر زور دیا جاتا ہے۔ جیسے لمبو، کالیا، چریا، قصائی، تیلی اور ٹوکا وغیرہ اب شاید ان کی عرفیت بھی گونگا مشہور ہو جائے۔ ویسے بھی طافو گونگا کافی بارعب لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ناقص فیلڈنگ و بیٹنگ آسٹریلیا نے پاکستان کو 41 رنز سے ہرا دیا
بے شک کرکٹ بائی چانس والی بات درست ہی ہو گی۔ مگر اپنی کوتاہی پر نظرڈالنا بھی تو ضروری ہے۔ گزشتہ روز پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف جو میچ کھیلا کیا وہ اس درجہ کا کھیل تھا کہ اسے ورلڈ کپ کا میچ کہا جائے۔ اس ورلڈ کپ سے پہلے انگلینڈ کیخلاف سیریز میں پے درپے شکستوں سے بھی ہماری ٹیم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ الٹا جو سیکھا تھا لگتا ہے وہ بھی بھلا دیا۔ میچ دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے فیلڈر فیلڈنگ اور بلے باز بیٹنگ بھول گئے ہیں۔ یا وہ میچ کو ایزی لے رہے ہیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ماہر کھلاڑی کسی اناڑی کی طرح کھیلتے نظر آئے تو اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب ہماری ٹیم ٹیبل پوائنٹس پر 8 ویں نمبر پر ہے ۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ اس ہار نے تو کرکٹ کے شائقین کو کافی مایوس کردیا ہے مگر کچھ لوگ ابھی تک کرامتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا پتہ کب کوئی چمتکار ہو جائے اور ہماری ٹیم 8 ویں پوزیشن سے اوپر کا سفر تیزی سے طے کرتی ہوئی آگے بڑھے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ورنہ پھسلنے والے نیچے کی طرف تیزی سے آتے ہیں جہاں ہم سے نیچے صرف جنوبی افریقہ اور افغانستان ہیں۔ دیکھتے ہیں اب لڈو والی سانپ سیڑھی ہمیں اوپر لے جاتی ہے یا نیچے پہنچاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
شہباز شریف کا بس چلے تو قومی اسمبلی سے لندن تک پل بنا دیں۔ فواد چودھری
شہباز شریف کا کیا پتہ اگر وہ ہوتے تو اس قسم کے کسی منصوبے پر بھی کام کا آغاز کر چکے ہوتے۔ یوں پاکستانی آرام سے لندن اور پیرس تک پل پر موج میلہ کرتے نظر آتے۔
فواد چودھری اس وقت وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔ وہ اس شعبہ میں اپنی مہارت تامہ کو استعمال میں لاتے ہوئے اگر واقعی کوئی ایسا پل بنا دیں جو قومی اسمبلی سے سیدھا لندن جاتا ہو تو یہ ان کی بڑی مہربانی ہو گی۔ وہ بھی اس طرح شہباز شریف اور عوام براہ راست اسلام آباد ٹو لندن روٹ کے مزے لوٹیں گے۔ اچھے کام میں تاخیر کیسی۔اب تو فواد چودھری کو چاند کے معاملے میں قدرے آرام ہے۔ اب وہ اس منصوبے پر کام کر کے اپنا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسے شیخ چلی والے منصوبے قدیم جادوئی قصوں کہانیوں میں عام ملتے تھے۔ فواد جی کو یہ بھی غصہ ہے کہ شہباز شریف نے ہرسڑک کے اوپر پل کیوں بنوایا۔ معلوم ہوتا ہے چودھری صاحب کو پل پسند نہیں ہیں۔ اس طرح شاید ان کی نظر میں شہروں کی اور سڑکوں کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔ عوام کو مسافروں کو کوئی سہولت ملتی ہے یا نہیں اس سے ان کو کوئی غرض نہیں۔
رہی بات اورنج ٹرین کی تو لاکھ اس میں عیب نکالیں اس کی برائیاں کریں۔ اسے سفید ہاتھی قرار دیں۔ جب یہ چلے گی تو لوگ اس طرح اس سے فائدہ اٹھائیں گے جس طرح میٹرو بس پر تنقید کرنے والے خود بھی اس میں سفر کرتے ہیں۔ سبسڈی سے نفرت ہے تو کرایہ مناسب کردیں بس کا بھی اور ٹرین کا بھی۔ اس طرح خسارہ بھی کم ہو گا عوام بھی مطمئن۔ یہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے اسلام آباد ٹو لندن والے پل کے منصوبے پر کام شروع کریں۔ شہباز شریف نہ سہی آپ کی جے جے ہو جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭