عام آدمی کی زندگی آسان بنانیکی ضرورت ہے
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک سے مخلص ہونا ہو گا، غریب کی بجائے امیر سے ٹیکس وصول کرینگے۔ سابق حکومت نے جاتے جاتے آدھے ٹیکس گزاروں کو نظام سے نکال دیا۔
ملک ماں کی طرح ہے بلکہ بعض حوالوں سے ماں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس سے مخلص نہ ہونے والے نرم سے نرم الفاظ میں بھی مادرِ وطن سے بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے ہر حکومت کو شکوہ رہا ہے۔ بہت سے لوگ ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں مگر ان کی وجوہات الگ الگ ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگر ان کو ٹیکس وصول کرنے والوں کی دیانت پر شبہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کی ٹیکس چوری کی ذہنیت بن چکی ہے مگر وہ ٹیکس چوری کرنے کے لیے ٹیکس وصول کرنیوالوں کے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر ٹیکس وصول کرنیوالے ایماندار ہوں تو کوئی بھی ٹیکس چوری کر سکتا ہے نہ ٹیکس سے بچ سکتا ہے۔ وطن سے مخلص ہونے کے لیے قوم کی ذہن سازی کی ضرورت ہے اس کے لیے تعلیمی نصاب کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ہر حکومت ریونیو ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ وصولی کے لیے ٹیکس وصول کرنیوالوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ مشیر خزانہ کی غریبوں کے بجائے امیروں سے ٹیکس وصولی کی منطق بھی ایک معمہ ہے۔ غریب ٹیکس کے زمرے میں آئے تو ہی اس سے ٹیکس لیا جائے گا۔ جس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اس سے ٹیکس وصول نہ کرنا اس پر احسان نہیں، اس پر احسان یہ ہے کہ اس کی زندگی آسان بنائی جائے جو مہنگائی کے طوفانوں سے اجیرن بن چکی ہے۔ امیر پر ٹیکس لگائیں گے تو اس کا اثر بھی تیل ، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی طرح عام آدمی پر ہی پڑے گا۔