بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اسی لیے دانش مند قومیں ان کی تعلیم و تربیت کو اپنا فرض اوّلین سمجھتی ہیں۔ انہیں جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل اور اس کے شاہ سوارو ں کی حیات و خدمات سے روشناس کرایا جاتا ہے اور بطور خاص اس نظریے سے آگاہ کیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر ان کا ملک معرضِ وجود میں آیا ہوتا ہے۔ ان تاریخی حقائق سے واقف بچے بڑے ہو کر جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے ملک کے سچے خدمت گار اور محافظ ثابت ہوتے ہیں۔ جو قومیں اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں‘ ان کی نسلِ نو درآمد شدہ افکار و نظریات کا آسانی سے شکار ہو جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے کیونکہ ہمارے ازلی دشمن اور بدترین ہمسائے بھارت کے نیتائوں نے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ ہماری آزادی کو آج تک دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ بھارت مسلسل ہمارے وجود کے در پے ہے۔ پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب وہ ہمیں اندر سے کمزور کرنے کے لیے ہائبرڈ وار یا ففتھ جنریشن وار پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اس نے باقی ماندہ پاکستان کے خلاف جس ثقافتی یلغار کا آغاز کیا تھا‘ اب وہ اس ہائبرڈ وار کا حصہ بن چکی ہے۔ شومئی قسمت کہ پاکستان کے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں امریکی ایماء پر نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں متعارف کروا دی گئیں جن کے باعث طلبا و طالبات اس مملکتِ خداداد کے نظریاتی تشخص اور اسلامی تاریخ کے ہیروز کے کارناموں سے بے خبر رہنے لگے۔ پاکستانی قوم کی پیٹھ میں یہ چھرا روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر گھونپا گیا اور غیر سرکاری تنظیموںکے ذریعے پوری شدو مد سے یہ پرچار کیا گیا کہ نصاب تعلیم میں متعارف کرائی گئی یہ تبدیلیاں عالمی برادری میں پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کریں گی اور انتہا پسندانہ نظریات کی بیخ کنی ہو گی۔
یہ تھا وہ پس منظر جب تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن‘ امامِ صحافت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سابق چیئرمین محترم مجید نظامی نے دیگر کارکنان تحریکِ پاکستان سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ نونہالان وطن کو قیام پاکستان کے حقیقی اسباب و مقاصد‘ اس مملکت کے اسلامی نظریاتی تشخص اور تاریخِ اسلام کے ہیروز کی حیات و خدمات سے روشناس کرانے کے لیے موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ایک ماہ کے دورانیے پر مشتمل نظریاتی سمر سکول کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔ چنانچہ 2002ء میں نظریاتی اور اخلاقی تدریس کے اس گہوارے کا پہلا تعلیمی سیشن منعقد ہوا اور اب تک الحمدللہ 18 تعلیمی سیشن کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہو چکے ہیں۔ اس سکول میں 6 تا 13 سال کی عمر کے طلبا و طالبات کو داخلہ دیا جاتا ہے اور انہیں پاکستانیت سے لبریز ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کی بدولت ان کے دل و دماغ میں پاکستان کے حوالے سے احساسِ تفاخر پیدا ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں اور تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اہم تاریخی مقامات کے مطالعاتی دوروں کے ذریعے بھی ان کی نظریاتی آبیاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ کی سرپرستی اور وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کی زیر نگرانی اس سکول کے 19 ویں تعلیمی سیشن کی افتتاحی تقریب گزشتہ روز ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ٹرسٹ کے وائس چیئرمین چیف جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے کی۔ اس موقع پر معروف سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع‘ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید‘ نظریاتی سمر سکول کی کوآرڈی نیٹر پروفیسر ڈاکٹر پروین خان‘ سابق رکن صوبائی اسمبلی رانا محمد ارشد اور ماہر تعلیم میجر (ر) سید اعجاز شاہ بھی موجود تھے جن کا ہال میں آمد پر بچوں نے بھرپور تالیوں سے استقبال کیا اور انہیں گلدستے پیش کئے۔ سکول کے انچارج سید عابد حسین شاہ نے معزز مہمانوں کی آمد پر ان سے اظہارِ سپاس کیا اور ان کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اس سکول کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تمام پروگراموں کی نظامت بچوں سے ہی کروائی جاتی ہے تا کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ چناچہ افتتاحی تقریب کی نظامت بھی ایک طالبہ سجل فاطمہ نے بڑی عمدگی سے نبھائی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید‘ نعت رسولِ مقبولؐ، کلامِ اقبالؒ اور قومی ترانے سے ہوا۔ وذیمہ ذوالفقار نے نظریاتی سمر سکول کی اہمیت اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور خوب داد سمیٹی۔ بعدازاں کلامِ اقبال ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پر خوبصورت ٹیبلو پیش کیا جس کے دوران تمام بچے قومی پرچم لہراتے رہے۔ محض تین دن کی تیاری سے اتنا شاندار ٹیبلو پیش کرنے پر طلبا و طالبات اور ان کے اساتذۂ کرام کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے‘ کم ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا‘ ان بچوں کی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں گی۔
چیف جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے اپنے صدارتی کلمات میں بچوں کو وطن عزیز کے اساسی نظریے کی ا ہمیت سے آگاہ کیا اور تاکید کی کہ وہ زندگی میں ہر قدم اٹھانے سے پہلے اتنا ضرور سوچ لیا کریں کہ خدانخواستہ اس سے پاکستان کی عزت اور وقار پر کوئی حرف تو نہ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ نسلِ نو کو پاکستان کی تاریخ و ثقافت اور حصول آزادی کے لیے پیش کردہ قربانیوں سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے تا کہ ان میں حبّ الوطنی کے جذبات پیدا ہو سکیں۔ دوران تقریب بیگم مہناز رفیع اور پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے بھی اظہار خیال کیا اور بچوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ انہیں اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دینے نیز والدین اور اساتذۂ کرام کا ادب کرنے کی تلقین کی۔ افتتاحی تقریب کے اختتام پر بچوں نے حسب روایت مشہور ملی نغمے ’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ کی گونج میں مہمانوں کو الوداع کیا۔ یاد رہے کہ یہ نظریاتی سمر سکول 13 جولائی 2019 ء تک جاری رہے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024