رمضان المبارک کا الوداعی پیغام
رمضان المبارک کا مہینہ رحمتوں، برکتوں، سعادتوںاور نعمتوں کے حصول کا مہینہ ہے۔ ہر صاحب ایمان رمضان کاخیرمقدم کرتا ہے اس کی برکات سے دینی فوائد حاصل کرتا ہے اور روحانی مدارج و مراتب کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ رمضان المبارک کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا جو صراط مستقیم کی طرف ہدایت اور راہنمائی ہے اور قرآن میں روشن دلیلیں ہیں۔ رمضان کی دوسری عظمت یہ ہے کہ اس میں روزے فرض کئے گئے ہیں۔ اور قرآن مجید میں روزے کا مقصد نیکی اور پرہیزگاری بیان فرمایا گیا ہے روزہ تزکیہ نفس پاکیزگی قلب اور احتساب کا دوسرا نام ہے۔ اسی ماہ مقدس میں مسلمان اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا ہے اور وہ نیک اعمال کو اختیار کرنے اور برے اعمال کو ترک کرنے کا عزم مصمم کرتا ہے اور اس کے لیے بارگاہ رب العزت میں ہروقت دست بدعارہتا ہے۔
رمضان تربیت نفس کا بہترین ذریعہ ہے اور پاکیزہ زندگی کے لیے نفس کی تربیت لازمی ہے۔ اس کے لیے عمل ضروری ہے۔ اور عمل ہی انسان کا زیور ہے قرآن عمل کی تعلیم دیتا ہے اور عمل ہی کی بنیاد پر انسان کو جانچتا ہے۔ رمضان عملی تربیت کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ رمضان المبارک ہمیں محبت ،مودت ،ہمدردی اور ایثار کا درس بھی دیتا ہے۔ ہم روزے کی حالت میں کسی بھی غریب بھوکے، پیاسے کی غربت اور ناداری کا بخوبی احساس کرسکتے ہیں۔ صدقہ فطر غربا اور نادار لوگوں کی امداد کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں انسان خود اپنا تجزیہ ،محاسبہ اور تربیت کرسکتا ہے۔ اس مہینے میں وہ بہت سی جائز چیزوں کو بھی ایک مقررہ وقت میں حرام کرلیتا ہے وہ کھاسکتا ہے مگر نہیں کھاتا وہ پی سکتا ہے مگر نہیں پیتا وہ اپنی جائز خواہشات کی تکمیل بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی ہمدردی اور خدمت بھی کرتا ہے اور ان کے دکھ درد کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگتا ہے۔ اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں قرآن جیسی روشن کتاب سے نوازا۔ ہم اس کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کرسکتے ہیں۔ اپنے اخلاق و عادات کو بہتر بناسکتے ہیں۔ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺسے اپنے تعلق کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے۔ قرآن ہمارا رہنما ہے۔ ہماری نجات و فلاح حضور سرور کائنات ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔
ماہ رمضان المبارک انسان کو انتہائی پاکیزہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت، تراویح، سحری کی لذت، مسجدوں میں اجتماعات، اعتکاف اور اس طرح کے دیگر اعمال حسنہ انسان کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ اور یہ بات اصلاح نفس کا باعث بنتی ہے۔
رمضان المبارک ۔ بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ حضور نبی پاک ﷺ نے اپنے ارشادات اور عمل کے ذریعے اس ماہ مبارک کی فضیلت اور عظمت کو بیان فرمایا۔ رمضان المبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70فرض کے برابر قراردیا۔ اللہ رب العزت کی رحمت خاص سے یہ ثواب 700گنا تک بھی بڑھادیاجاتا ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا) کاثواب بھی کئی گنا بڑھاکر دیا جاتاہے۔ اس ماہ مبارک میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے اسلامی معاشرے میں بسنے والے ہر فرد بشر خصوصاً والدین، رشتے دار، پڑوسی، غریب، یتیم، نادار، بیمار اور ضرورت مند لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کو مدنظر رکھا جائے۔ زکوٰۃ جو ارکان اسلام میں شامل ہے۔ اگر رمضان المبارک میں غریبوں ، محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دی جائے تو اس کا اجروثواب زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے اس سے مال و دولت میں برکت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ صدقات میں بخل کرنا، آسمانی برکتوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔ رمضان المبارک میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور ضرورت کو خاص طورپر اجاگر کیا گیا ہے۔ تاکہ غریبوں ، محتاجوں، نادارں، یتیموں اور ضرورت مندلوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوجائے محتاج اور غریب لوگوں کی ضرورتوں کا احساس اور اس کی حاجت روائی معاشرے کے تمام طبقات کا فرض ہے۔
قرآن مجید نے متقی اور اطاعت گزاربندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ وصف بھی بیان کیا کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے غریب اور محتاج لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کو اپنے راضی ہونے کی بشارت دی۔ اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنائی۔ چونکہ مال و دولت اللہ کے عطاکردہ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا اہل ایمان کے لیے ضروری ہے عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے خیراتی اداروں کا قیام۔ تعلیم و تربیت کے مدارس۔ بیماروں کے علاج کے لیے ہسپتال ۔ یتیم خانے اور دوسرے رفاہی اور فلاحی اداروں کا قیام بھی انفاق فی سبیل اللہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ سے اجر و ثواب اور خوشنودی رب ذوالجلال کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہمدردی۔ اخوت و محبت۔ خیرخواہی۔ باہمی تعاون اور رواداری کے پاکیزہ جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس سے غریبوں ، محتاجوں اور ناداروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ سے ہمدردی ، غم خواری اور خلوص و ایثار کے جذبات پید ا ہوتے ہیں اور یہ انسانیت کے ایسے اوصاف ہیں کہ ان کے ذریعے معاشرے میں محبت اور الفت کا جذبہ کار فرمانظر آتا ہے۔ ایک کامیاب خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان یہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور باہمی ایثار و محبت کا برتائو کریں۔ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ بیمار کی تیمارداری کریں، مستحق افراد کے ساتھ فیاضانہ سلوک کریں۔ یہ خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے۔ یہ وہ اعلیٰ صفات ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر انسان ان صفات سے محروم ہو تو اس کی حقیقت معاشی حیوان سے زیادہ نہیں۔
پاکستان کا قیام بھی رمضان المبارک کی 27شب کو عمل میں آیا تھا۔ یہ یوم نزول قرآن اور شب قدر تھی یہ منشائے قدرت تھا کہ پاکستان ایسے دن قائم ہوا جو عالم اسلام کے نزدیک مبارک و متبرک ہے اور جس کی عظمت و تقدس پر سارا عالم اسلام متفق اور متحد ہے۔یعنی منشائے الٰہی ہی تھا کہ پاکستان قائم ہو اور اس میں نظام مصطفی ﷺ نافذ ہو۔ رمضان المبارک ضبط نفس ،ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ روزے کی حالت میں انسان میں بھوکوں اور پیاسوں کی محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہی احساس روزے دار کو لوگوں کی دوسری مشکلات اور ضروریات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ قرآن مجید نے روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ قرار دیا ہے۔ رمضان فرضیت روزہ اور نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ روزہ نیکی اور پرہیز گاری کا ذریعہ اور قرآن مجید تمام انسانیت کی فلاح و نجات کا سرچشمہ اور مکمل ضابطہ عمل ہے۔
رمضان المبارک کا الوداعی پیغام یہ ہے کہ ہم معاشرے کے نادار افراد کی مدد کریں۔ ان کی ضروریات کو پورا کریں اور حتی الامکان انہیں اپنی خدمات فراہم کریں۔ معاشرے میں حسن و خوبی پیدا کرنے کے لیے باہمی تعاون او ر ایثار ضروری ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر انسان پر فرائض عائد ہوتے ہیں جو ذاتی بھی ہیں اور خاندانی بھی قومی بھی ہیں اور ملکی بھی ان تمام فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدبرآہ ہونے کے لیے باہمی تعاون اور ایثار و قربانی ضروری ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم رمضان المبارک کے اس پیغام پر عمل کرتے ہوئے جھوٹ، بددیانتی، خیانت، ظلم، تشدد، چیزوں میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، کرپشن، رشوت ستانی اور اقربا پروری کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیں گے۔ اور اقامت صلوٰۃ ، صداقت و دیانت اور امانت و شرافت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ یہ دین کا تقاضا بھی ہے اور تقاضائے وقت بھی۔
اللہ رب العزت بوسیلہ حضور سرور کائنات ﷺ ہمیں رمضان المبارک کے اصل مقصد اور اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور عید الفطر کے تہوار کو حقیقی معنی میں عالم اسلام کے لیے خوشیاں اور مسرتوں کے پیغام کے ساتھ ساتھ اسلام کی سربلندی اور وطن عزیز پاکستان کی سا لمیت و استحکام کا ذریعہ بنادے ۔ آمین ۔