سیاسی جماعتوں کا بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا فیصلہ
فرخ سعید خواجہ … لاہور
وسوسے اور خدشات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور الیکشن 2018ء کی منزل سامنے نظر آنے لگی ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے لئے بُری خبر ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کو سیاست سے تاحیات نااہل کروانے کے لئے میدان میں آ گئے ہیں اور انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کے کاغذات کو چیلنج کریں گے کہ عمران خان نے سیتا وائٹ سے اپنی بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں اپنی اولاد ظاہر نہیں کیا۔ سوموار کو پاکستان پیپلز موومنٹ کے سیکرٹری جنرل سید منظور علی گیلانی کی دی گئی افطار پارٹی میں موومنٹ کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے نواز شریف کے خلاف یکطرفہ جاری احتساب کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تاثر ہے جو کہ ضائع ہونے والا ہے۔ انہوں نے جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کی جانب سے عمران خان کے کاغذات چیلنج کرنے اور ٹیریان کو اپنی اولاد کی حیثیت سے چُھپانے کے خلاف ریٹرننگ افسر کے پاس جانے کو بہت سنجیدہ معاملہ قرار دیا اور کہا کہ ٹیریان کا معاملہ پہلے بھی کئی مرتبہ اُٹھا لیکن اس مرتبہ عمران خان نہیں بچ سکیں گے۔ انہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ ٹیریان کیس میں عمران خان آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دئیے جائیں گے۔ اس طرح احتساب یکطرفہ نہیں رہے گا۔کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی حلقوں کے لئے میاں نوازشریف کے بعد عمران خان کی سیاست سے تا حیات نااہلی بہت افسوسناک ہوگی۔ تاہم جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی رائے پھینکی نہیں جا سکتی۔ عمران خان نااہل ہو جاتے ہیں تو جہاں پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان پہنچے گا وہاں مخدوم شاہ محمود قریشی کی لاٹری نکل آئے گی کہ مخدوم شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کی جیت کی صورت میں وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔
البتہ پارٹی میں عمران خان کے رائٹ ہینڈ عبدالعلیم خان کو ٹکٹوں کی تقسیم سمیت پارٹی امور میں اپنی مرضی منوانے کا نقصان پہنچے گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ان کی جگہ میاں محمود الرشید، چودھری سرور، یا اعجاز چودھری کو دیکھنا پسند کریں گے۔
پاکستان میں بلاشبہ اقتدار کی سیاست میں الیکٹ ایبل امیدواروں کا بہت اہم کردار ہے، اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ہمیشہ مہروں کے طور پر استعمال کیا۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پارٹی کے نظریے اور اپنے اصولوں کے خلاف اقتدار کے حصول کیلئے عمران خان نے بہت بڑا جوا کھیلا ہے۔الیکٹ ایبل کو ترجیح دے کر پی ٹی آئی کے تشخیص کو بری طرح مجروح کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی اب تبدیلی کا نعرہ لگانے کے قابل نہیں رہی کہ وہ اب سٹیٹس کو چاہنے والی جماعتوں میںشامل ہوچکی ہے۔
پی ٹی آئی کا ووٹر اس صورتحال پر یقینی طور پر پریشان ہے تاہم ہمارا یہ ماننا ہے کہ ووٹر خواہ کسی سیاسی جماعت کا ہے مسلم لیگ (ن) ہو یا پی ٹی آئی وہ یکسو ہو چکا ہے اور اپنی قیادت کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی ا پنی جماعت ہی میں کھڑا رہے گا۔ البتہ پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے معاملے میں پی ٹی آئی کے جدوجہد کرنے والے لوگ الیکٹ ایبل کے آٰنے سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں سو وہاں ٹکٹوں کی تقسیم پر دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ شور اٹھے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں سے بھی احتجاج کی آوازیں اٹھیں گی تاہم مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں سے محروم رہنے والی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی خواتین یکساں طور پر قیادت کیخلاف احتجاج اور واویلا کریں گی۔
بڑی سیاسی جماعتوں میں سے پیپلزپارٹی نے بھی پنجاب میں اپنے امیدواروں کی چھان پھٹک شروع کر دی ہے اس کام کو اپنی نگرانی میں کروانے کیلئے جناب زرداری خود بلاول ہائوس لاہور میں براجمان ہیں۔ شاندار ماضی رکھنے والی اس جماعت کو صوبہ پنجاب میں امیدواروں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 30 نشستوں کیلئے امیدوار لانا زرداری صاحب کیلئے درد سر بن گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی نائب صدر میاں منظور وٹو نے پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کردیا ہے اور زرداری صاحب کو بتا دیا ہے کہ وہ الیکشن آزاد حیثیت میں لڑیں گے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس صورتحال پر آصف زرداری جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ سو پنجاب کے صوبائی اور لاہور کے عہدیداران کی شامت آ گئی ہے۔ میاں منظور احمد خان وٹو جو کہ الیکشن 2013ء میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر تھے اور پارٹی ٹکٹوں کے حوالے سے ان کی پنجاب کے جن پارٹی لیڈروں نے تنقید کے نشتر چلا کر جان عذاب میں ڈال دی تھی انہیں مکافات عمل کا شکار دیکھ کر یقیناً منظور وٹو توبہ توبہ کر رہے ہوں گے۔
حال ہی میں سامنے آنے والی دینی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو بہت خوشگوار حالات کا سامنا ہے۔ ان کے پاس ووٹر تو موجود تھے لیکن اب دیگر بڑی جماعتوں کی جانب سے مایوس ہو کر بہت سے امیدوار ان سے رجوع کر رہے ہیں اور لگتا یہ ہے کہ 28 جون کو جب سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے انتخابی نشان ریٹرننگ افسروں کے پاس جمع کروانے میں ، ٹکٹ سے محروم رہنے والوں کی بڑی کھیپ تحریک لبیک پاکستان کو مل جائے گی۔
متحدہ مجلس عمل جس نے الیکشن 2002ء میں اپنی توجہ محض خیبر پختوانخواہ تک محدود رکھی تھی اس مرتبہ صوبہ پنجاب کو بھی ٹارگٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے متعدد حلقوں میں ان کا اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ اجسٹمنٹ کا معاملہ بھی طے پا جائے۔یوں ایم ایم اے اس مرتبہ پنجاب کی صوبائی سمبلی میں چند ایک نشستیںجیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) الیکشن 2013ء میں بھی قومی اسمبلی کی تمام 272جنرل نشستوں پر امیدوار نہیں لائی تھی اور اس مرتبہ بھی ان کے امیدوار 200 کے لگ بھگ ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین نوازشریف، شہبازشریف، راجہ ظفر الحق ہمیشہ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حامی رہے ہیں سو ان کا پنجاب کی کچھ نشستوں کے علاوہ خیبر پختوانخواہ، سندھ اور بلوچستان کی بعض نشستوں پر بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس کی حکمت عملی پچھلے ہی دن نوازشریف ، شہبازشریف کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے اجلاس میں طے کی گئی ہے۔جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے اگرچہ وہ سولوفلائیٹ پر یقین رکھتی ہے لیکن انہوں نے بھی مسلم لیگ (ق) کیلئے چند ایک نشستیں خالی چھوڑ دی ہیںآگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ البتہ (ن) لیگ کے خلاف کی بڑے انتخابی اتحاد بننے کے امکانات اب معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔