ریحام گوئی اور اِیہام گوئی
خان لیاقت علی خان اور خان عبدالقیوم خان معتبر، مگر جب سے نصرت فتح علی خان اور عمران خان موسیقی اور کرکٹ کے اُفق پر جگمگائے ، مجھ ایسے نان خان عامیوں نے بھی اپنے نام کے سنگ ”خان“ کا لاحقہ لگا لیا۔ جمائمہ کے تو ہم گواہ ہیں کہ وہ ہمارے سامنے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد خان بنیں مگر ریحام کے بارے یقین سے کہنا مشکل ہے کہ وہ جماندرو خان تھیں یا ’مشرف بہ عمران‘ ہونے کے بعد خان بنیں۔ خان مذکر ہے جبکہ خانم اس کی تانیث۔ اگر وہ جماندرو خان دانِ خان سے ہوتیں تو ریحام خانم ہونی چاہیے تھیں نہ کہ ریحام خان ۔جیسے عمران ’خان‘ ہیں جبکہ اُن کی والدہ مرحومہ شوکت خانم۔ چونکہ ریحام خان شروع سے ہی کام سب مردانہ کرتی ہیں یا مردانہ وار کرتی ہیں اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ مجھے خانم کی بجائے خان ہونا چاہیے ۔ ’خان ‘سردار یا رئیس آدمی کا لقب ہوتا ہے ۔اسی طرح خانم، خان کی بیگم کو کہتے ہیں ۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ ریحام نے بھی خانم بننے پر خان بننے کو ترجیح دی۔انہوں نے عمران خان کی بیگم بننے کی بجائے خود عمران خان بننے کی کوشش کی اور یہی وہ نقطہ¿ بگاڑ ہے جہاں سے خوانین کی راہیں جداہوئیں۔ اُردو کی مثل ہے ”خانِ خاناں جن کے کھانے میں بَطانہ“ بَطانہ اس ٹوپی کو کہتے ہیں جو پگڑی کے نیچے پہنی جاتی ہے ۔ مراد چھپی ہوئی چیز۔ یہ مثل اُس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی کسی پر خفیہ طور پر احسان کرے ۔ عبدالرحیم خانِ خاناں پِسربیرم خان جب کسی غریب کو کھانا بھیجتے تو پوشیدہ طور پر اُس کے اندر اشرفیاں رکھ دیتے ۔ واقفانِ حال و کال بتاتے ہیں کہ بات اگر خان یا عمران خان بننے تک محدود رہتی تو کچھ بات بھی تھی ۔ بات تو تب بگڑی جب ریحام خان نے خانِ خاناں اور جانِ جاناں بننے کی بہ یک وقت کوشش کی۔ اگر وہ ٹھنڈا کر کے کھاتیں تو بغیر محنت کے وہ ایک روز خاتونِ اول یا خانمِ اول یا خانِ اول بھی بن سکتی تھیں مگر وہ جلدی میں تھیں۔ اُن کے پاس سمے کم تھا ،وہ لیٹ نکالنا چاہتی تھیں۔
ہم آج تک مشرقی روایات و اقدار کی امین مشرقی بیو ی کی جو خوبیاں سنتے ، کرتے ، پڑھتے اور لکھتے آئے ہیں وہ ساری کی سار ی تو مغربی بیوی جمائما خان لے اُڑی، خواہ وہ منی ٹریل کا معاملہ ہو یا سابق خاوند کی عزت کا بھرم، ذاتی تشہیر کا معاملہ ہو یا ناقابلِ فروخت ہونے کا، دونوں خوانیں خواتین نے حد کردی ہے مگر دونوں کی حد متضاد سَمت میں ہے ، بُعدُ المشرقین۔ مثل ہے کہ’ ہر کامیاب کے مرد پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘ اور وہ عورت جمائمہ خان ہوتی ہے جس نے 25سال بعد بینک کے کاغذات ڈھونڈ کر عمران خان کی دستار بچائی جبکہ ہر ناکام مرد کے پیچھے کئی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے اُن میں سے ایک کا نام قارئین خود سوچ لیں۔
”کال کے ہاتھ کمان، نہ بوڑھا بچے نہ جوان“ ریحام خان نے قلم کمان سنبھالی اور کپتان کے ہر پیروجواں کو بے تاب کردیا۔ قبل از ریحام یہ کام تہمینہ درانی بھی سر انجام دے چکیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اُس نے کھر کواپنا اور اپنے کوبھی اپنے سابق سائیں، انیس کا مجرم گردانا جبکہ ریحام نے سب کو.... سوائے اپنے۔اشفاق احمد مرحوم کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ ” سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں لکھا جائے دوسروں کے بارے لکھا اور بولا سچ ، سچ تھوڑا ہوتا ہے“ ۔جیسے نواز شریف آج کل صرف دوسروں کے بارے میں سچ بول رہے ہیں۔سیاست اور کرکٹ میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے ۔ غلط وقت پر صحیح فیصلہ اور صحیح وقت پر غلط فیصلہ مضرِ سیاست و کرکٹ ہوتا ہے ۔ ریحام خان کی کتاب اور اس کی ٹائمنگ کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہے ، خواہ وہ ریحام خان کی اپنی ہو یا اور کسی کی۔ اس کتاب اور اس انتخاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ پشاور میں سبزی کا بھی لنڈا بازار شام کو لگتا ہے ۔ بروقت اور تازہ سبزی ہی اچھی لگتی اور بکتی ہے ، شام کو وہی سبزی پشاور کے لنڈا بازار میں آدھی قیمت پر کوئی نہیں لیتا۔ موجودہ انتخابات کے بعد اس کتاب کی بھی یہی حیثیت رہ جائے گی۔ اس کتاب کے سپانسر چاہتے تھے کہ آخری اوور میں ریحام خان سے کپتان پر بالنگ کروائی جائے یعنی انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل کتاب کی لانچنگ ہو ، تا کہ عمران خان کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملے مگر حمزہ علی عباسی نے بیچ چوراہے کے بھانڈا پھوڑ دیا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں لیڈر کتاب نہیں پڑھتے تو ووٹر کا اس کتاب نے کیا بگاڑ لینا تھا۔ جیسے تہمینہ درانی کی کتاب My Feudal Lordیا اُس کا ترجمہ مینڈا سائیں نے مصطفی کھر کا بال بھی بیکا نہ کیا۔ مگر اُس وقت میں اور آج میں بہت فرق ہے ۔ اُس وقت میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا۔ آج الحمد للہ یہ دونوں بہ اِفراط موجود ہیں اور موثر بھی ۔ جہاں جہاں ریحام نے اِیہام گوئی کی ہے وہ فقرے نون لیگ کے بالر عمران خان کی ٹیم پر باﺅنسر پھینکیں گے ۔ ابھی میچ کا آغاز ہے ،کھلاڑی ہر طرح کی بال کو با آسانی کھیل جائیں گے مگر آخری اوور (ہفتے) میں کھلاڑیوں کا سنبھلنا مشکل ہو جاتا۔
ریحام زدگان نے ریحام خان کو قانونی نوٹس بھی ارسال کر دیئے ہیں۔ جملہ مضروبین و مجروحین کو اس ہنگام ہماری صائب صلاح ہے کہ وہ سنسر بورڈ کو عرضی پیش کریں کیونکہ ہماری دانست میں کتاب ہذا پڑھنے سے کم اور دیکھنے سے زیادہ تعلق رکھتی ہے اور اگر یہ کتاب سنسر بورڈ سے ہو آئے تو جو باقی ماندہ کتاب بچے گی اُس پر یقین ِ واثق ہے کہ ریحام خان آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے مندرجہ ذیل خیالات سے مکمل ہم آہنگ پائی جائیں گی۔
نہیں حالِ دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رُلانے کے قابل
لٹیروں نے لُوٹے ہیں وہ قصر اسکے
جو تھے دیکھنے اور دِکھانے کے قابل