اچکزئی کی طرف سے پختون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوشش!
اگست 2016ءمیں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ”بلوچستان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی“ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے یہ کہہ کر پوری قوم کو حیران کر دیا کہ ”صوبہ خیبر پختونخواہ افغانیوں کا ہے۔ افغان مہاجرین کو اگر ملک بھر میں کوئی تنگ کرے تو وہ خیبر پختونخواہ میں آ جائیں جہاں وہ بلاخوف و خطر رہ سکتے ہیں۔ وہاں ان سے کوئی مائی کا لال مہاجر کارڈ سے متعلق پوچھنے کی جرا¿ت نہیں کرے گا کیونکہ کے پی کے افغانیوں کا ہی ہے“
ان کا مذکورہ بیان پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی جس کے خلاف شدیدردعمل سامنے آیا۔ لوگ اس بات پر بھی حیران تھے کہ قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں کی طرف سے محمود اچکزئی کے بیان پر کسی ممبر نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ موصوف نے اس پر بس نہیں کی انہوں نے پاک افغان طورخم بارڈر کی بندش پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسلام آباد اور کابل سے طورخم بارڈر پر آزادانہ آمدورفت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر دونوں ملکوں کویہ مسئلہ امریکہ اور چین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جو دو ہفتوں میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیں گے۔ محمود خان اچکزئی کے غصے اور صوبہ خیبر پختونخواہ کو افغانیوں کی ملکیت قرار دینے کا سبب صوبہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور انہیں واپس ان کے ملک افانستان بھیجے جانے کے لئے اٹھنے والی آوازیں تھیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے سامنے آنے والا مذکورہ مطالبہ 8 اگست 2016ءکو کوئٹہ کے سول ہسپتال پر کیا جانے والا تباہ کن خود کش دھماکہ تھا۔ اس دھماکے میں 130 سے زیادہ افراد زخمی اور 90 سے زائد شہید ہو گئے جن میں کوئٹہ و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وکلاءکی اکثریت تھی۔ ہسپتال پر خود کش حملہ انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا جس کے لئے نامعلوم افراد نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو اس وقت قتل کر دیا جب وہ دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلے۔ انہیں فوری طور پر سول ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ کوئٹہ بار اور کچہری میں بلال انور کاسی کے قتل کی خبر پہنچی تو وکلاءحضرات فوراً سول ہسپتال کی طرف دوڑے۔ جب ہسپتال میں وکلاءکی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی تو وہاں دہشت گردوں نے سفاکیت کا مظاہرہ کر دیا۔ مذکورہ دہشت گردی کا حملہ پاکستان میں طویل عرصہ تک جاری رہنے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں سے ان تباہ کن واقعات میںسے ایک تھا جس نے ملک بھر میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو شدید رنج و دکھ سے دوچار کیا۔ دہشت گردی کے بعد جماعت الحرار نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
ابتدائی تحقیقات اور گرفتار کئے گئے چند مشکوک افراد سے تفتیش کے بعد جس طرح کے حقائق سامنے آئے ان نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی وزارت داخلہ نے صوبے سے افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوانے کا مطالبہ کر دیا۔ تفتیشی نتائج کے مطابق افغان مہاجرین نے اپنے کیمپوں میں سول ہسپتال پر خود کش حملے کے لئے آنے والے دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس سے قبل پشاور آرمی پبلک سکول پر خود کش حملے سمیت دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں میں بیرونی دہشت گردوں کی افغان مہاجر بستیوں میں پناہ لینے کے ناقابل تردید ثبوت ملے تھے۔ جو کابل میں افغان حکومت اور وہاں تعینات امریکی کمانڈروں کو بھی پیش کئے گئے۔ محمود خان اچکزئی نے ہسپتال میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری ”سکیورٹی لیپس“ کے نام پر فوج اور اس کے خفیہ اداروں پر ڈال دی۔ اس زمانے میں فاٹا کے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمہ کے باوجود افغان سرحد سے ملحقہ ایسے دشوار گزار مقامات موجود تھے جہاں سے دہشت گرد نہ صرف پاک فوج کی چوکیوں بلکہ مقامی آبادیوں پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں خفیہ راستوں کے ذریعے افغانستان سے پاکستانی علاقوں میں داخل ہو کر دہشت گردی کی اِکا دُکا کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اس وقت نہ تو پختون تحفظ موومنٹ کا کوئی وجود تھا نہ ہی منظور پشتین جیسا کردار ابھر کر سامنے آیا تھا تاہم آج کا منظر ناہ دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمہ اور افغانستان سے ان کی آمد کا سلسلہ روکنے کے لئے بارڈر منیجمنٹ کو سختی سے بروئے کار لانے اور پاک افغان سرحد پر خاردار باڑ کی تنصیب کو اپنے پاکستان مخالف ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے صوبہ پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں پختون قوم پرستی کو ہوا دے کر پورے ملک میں انتشار برپا کرنے کی منصوبہ بندی کابل اور نیو دہلی میں جاری تھی ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بغیر تیاری اور وافر سرمائے کے صرف نقیب اللہ محسود کے خون ناحق کی بنیاد پر قتل کو نسلی امتیاز کا نام دے کر اتنے منظم انداز سے ملک بھر میں احتجاج اورجلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔پختون تحفظ موومنٹ نے رنگ جمانا شروع کیا تو منظور پشتین کے محمود خان اچکزئی اور کابل میں افغان حکومت کے سرکردہ افراد کے ساتھ رابطوں کی تفصیل منظر عام پر آنا شروع ہو گئی۔ اب یہ اتفاق نہیں ہو سکتا کہ منظور پشتین کے مقاصد کی حمایت کرنے کے لئے الطاف حسین نے اپنے ویڈیو پیغام میں جس طرح کے الفاظ استعمال کئے‘ اسی طرح کے الفاظ پر مشتمل محمود خان اچکزئی کا دنیا بھر میں موجود پختونوں کے لئے پشتو زبان میں ویڈیو پیغام سامنے آ گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور اس سے باہر دنیا میں کہیں بھی پختون موجود ہیں۔ وہ پاکستان میں پختونوں کے حقوق و تحفظ کے لئے منظور پشتین کا ساتھ دیں جو پختونوں کے حقیقی لیڈر کے طر پر ابھر کے سامنے آیا ہے جس طرح الطاف حسین پاک فوج اور پنجاب کے مہاجروں کے حقوق کا غاصب قرار دیا کرتا تھا اور آج بھی اس کے زیادہ تر ویڈیو پیغامات اس طرح کے الزامات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ان کے آئندہ کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے‘ فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام کی شدید ترین مخالفت اور اس کے لئے کسی بھی طرح کی دلیل سامنے لانے کی بجائے افغانستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ و فاٹا پر ملکیت کے لغو قسم کے دعوے کی حمایت فراہم کرنے والے محمود خان اچکزئی نے جس انداز سے منظور پشتین کی تعریف اور اسے پختونوں کا پاکستان میں حقیقی لیڈر قرار دیا ہے اس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی جماعت بلوچستان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو منظور پشتین کی جماعت پختون تحفظ موومنٹ میں ضم کرنے کا اعلان کریں گے لیکن 8 جون 2018ءکو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے مردم شماری میں بلوچستان میں پختونوں کی تعداد کم ظاہر کرنے کا مسئلہ اٹھا دیا۔ حالانکہ مذکورہ مردم شماری کا عمل ان کے اپنے دور اقتدار میں مکمل ہوا تھا۔ عید کے بعد پاکستان میں پختون قوم پرستی کے نام پر منظم انداز سے سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ان کی سربراہی میں منظور پشتین کی کابل میں پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیوں سے ملاقاتوں کی تفصیل سوشل میڈیا پر گردش میں ہے جس میں برہمداغ بگٹی و حربیارمری سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے الطاف حسین‘ محمود خان اچکزئی کی طرز پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے منظور پشتین کے ساتھ مل کر پاک فوج اور پنجاب کے خلاف جدوجہد کرنے کیلئے ویڈیو پیغامات جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مہران مری نے جنیوا میں کھڑے ہو کر اپنے 9 منٹ کے ویڈیو پیغام میں اسلام کے نام پر پختونوں کو پاکستان سے علیحدگی کی ترغیب دی ہے اور پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی تنقید کا نشانہ بنا کر دو قومی نظریہ کے دشمنوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمارے دانشور طبقے کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی تقسیم اور اقتدار کی رسہ کشی پر تبصروں میں سے کچھ وقت ملک کو درپیش سلامتی کے خطرات سے آگاہی کو بھی دیں اورقوم کو نئے فتنوں سے آگاہ کریں۔