بابِ پاکستان کیوں نہیں بن سکا؟
”سات، آٹھ سال بھرپور سیاسی تحریک چلی اور پاکستان بن گیا لیکن کئی دہائیوں کے باوجود ”باب پاکستان“ کیوں نہیں بن سکا ”لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید سالک کا یہ سوال غور طلب بلکہ ہر پاکستانی کی پاکستانیت کے لئے تازیانہ بھی ہے۔ ”باب پاکستان“ ایک جگہ، ایک عمارت کا نام نہیں بلکہ یہ پاکستان بنانے والوں پر جو گزری اس دلخراش داستان کا امین ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی ر ہنما، امیر العظیم نے باب پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد کا پرچم بلند کیا ہے یہ بلاشبہ عظیم قومی خدمت ہے ہر پاکستانی کو اس پرچم تلے مستعدی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ لاہور پریس کلب میں منعقدہ تقریب اس حوالے سے تھی جس میں عبدالمجید سالک نے یہ تاسف اور استعجاب بھرا سوال حاضرین کے سامنے رکھا۔ جناب مجیب الرحمن شامی ، تحریک انصاف کے میاں محمود الرشید، دانشور اور تجزیہ نگار اوریا مقبول جان اور اینکر مبشر لقمان نے باب پاکستان کی تکمیل کو قومی ضرورت قرار دیا تاکہ آج اور آئندہ نسلیں یہ جان سکیں کہ پاکستان طشتری میں رکھ کر نہیں مل گیا تھا بلکہ لاکھوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ عفت مآب ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی چادر عصمت تاتار ہوئی۔ صحافت اور سیاست دو مختلف شعبے ہیں ان میں چولی دامن کا ساتھ الگ بات ہے مبشر لقمان کی بیک وقت صحافی اور سیاستدان اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا صحافی سیاستدان نہیں ہوتا بلکہ وہ سیاست پر کڑی نظر رکھتا ہے اور سیاست کے منفی اور مثبت پہلوﺅں کو اُجاگر کر کے عوام الناس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ امیر العظیم نے ا س اعتماد کے ساتھ کہ مبشر لقمان نے جس چیز میں ہاتھ ڈالا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی باب پاکستان کی تکمیل کی مہم اس کے سپرد کر دی ہے اس مقدس مشن کیلئے مبشر لقمان کو میری عاجزانہ خدمات بھی ہر لمحے حاضر ہیں۔ ملکی سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالی جائے تو ”الیکٹ ایبلز“ کی محتاجی نے جہاں عمران خان کی انقلابی سیاست کا رُخ روایتی سیاست کی جانب موڑ دیا تھا وہاں ان کے ”سیز قدموں“ کے باعث کراچی سے پشاور تک پارٹی میں ہا ہا کار مچی نظر آ رہی ہے تاہم یہ غیر متوقع نہیں ہے ”الیکٹ ایبل“ ہی پارٹی ٹکٹوں سے سرفراز ہو سکتے ہیں ۔ جب یہ الیکٹ ایبل دھڑا دھڑ پارٹی کی صفوں میں گھس رہے تھے تو اسے پارٹی کی مقبولیت اور مضبوطی کا ڈھول پیٹتے ہوئے یہ کارکن بھنگڑے ڈال رہے تھے جو آج ”نچ نچ ساڈھے گوڈے رہ گئے، ٹکٹ سارے لوٹے لے گئے“ کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ آج پارٹی میں بنی گالہ سے ملک بھر میں ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف جو صف ماتم بچھی ہے ا س کی چند جھلکیاں راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، پشاور، اوکاڑہ، سرگودھا، مظفر گڑھ، ملتان ا ور د یگر شہروں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ناانصافی کے ردعمل نے بہت سوں کو پارٹی کے مقابل لاکھڑا کیا ہے پشاور میں عمران کے ایڈوائزر اور سابق گورنر افتخار حسین شاہ نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح فیصل آباد میں نئے آنے والے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی غلام رسول ساہی اور ان کے بھائی (ق) لیگ آنے والے چودھری ظہیر الدین اور ا ن کے بھائی ، اٹک میں میجر طاہر صادق کو دو ٹکٹ جبکہ دھرنے میں لوگوں کے ناشتے اور کھانے پر کمائی لٹانے والے بہادر علی ڈ وگر نظرانداز ، سرگودھا میں تمام نشستیں نئے آنے والوں میں بانٹ دی گئیں نور محمد کلیار جس نے نواز شریف کے مقابلے میں 50 ہزار ووٹ لئے نظرانداز، ان کی جگہ نئے آنیوالے ظفر قریشی ٹکٹ کے حقدار ، جھنگ میں نثار جٹ، لالی خاندان، نذر سلطان، غلام بی بی بھروانہ لاہور میں ولید اقبال کو پسند کا حلقہ دینے سے انکار اور حامد خان ایڈووکیٹ جیسی بھاری بھرکم شخصیت پارٹی ٹکٹ کی دوڑ سے آﺅٹ۔ خیبر پی کے میں نجی اللہ خٹک نظرانداز، نئے آنے والے سلیم تیمور پر نوازش، نتیجہ یہ کہ نجی اللہ خٹک پی کے 73 سے، اختر گل، دل روز خان نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ کرک میں پرانے کارکن گل صاحب خٹک کی جگہ اے این پی سے آنے والے فرید طوفان ٹکٹ کے حقدار این اے 30 سے ارباب نجیب پی ٹی آئی چھوڑ کر جمعیت علماءاسلام (ف) میں شامل۔ راولپنڈی میں پی ٹی آئی اور عمران کی حمایت میں تمام حدیں پار کرنے والے فیض الحسن چوہان سے ٹکٹ واپس، مردان میں محمد علی خان فی الحال بے اعتنائی کا شکار جو ٹی وی پروگراموں میں عمران کا بھرپور دفاع کرتے رہے۔ اوکاڑہ میں بڑے دھوم دھڑکے سے پیپلز پارٹی چھوڑ کر آنے والے اشرف سوہنا کا پورا گروپ نظرانداز، مظفر گڑھ کی مہناز سعید درانی خوایتن کا پانچ فیصد کوئٹہ اور پرانے کارکنوں کو نظرانداز کرنے پر سراپا احتجاج، لاہور پریس کلب میں مجھ سے گفتگو میں شکوہ کیا این اے 182-181 کو جمشید دستی اور رضا ربانی کھر کے لیے چھوڑا جا ر ہا ہے۔ پارٹی کے لئے دن رات کام کرنے والے مہر جاوید کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا جمشید دستی نے ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں کیا جبکہ انہوں نے مظفر گڑھ میں پاسپورٹ آفس بنوا کر لوگوں کو آسانی فراہم کی ہے۔ عمران نے اعتراف کیا دس فیصد ٹکٹ متنازعہ ہیں جن پر نظرثانی کی بات کی ہے۔آغاز میں باب پاکستان کی بات ہوئی یہ اس لئے بھی قومی ضرورت ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر ثقافتی یلغار جاری ہے جس کا مقصد پاکستان کی نئی نسل کو نظریہ¿ پاکستان یعنی مقاصدِ پاکستان، ان کی اسلامی روایات و ا قدار سے بیگانہ کر کے اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار کرنا ہے بھارت میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے گائے رکھشا کے نام پر انتہا پسند ہندوﺅں کو لائسنس دےدیا گیا ہے وہ جب اور جس مسلمان کو چاہیں قتل کر سکتے ہیں ا ور اب ایک اور خطرناک قدم ہندو نوجوانوں کو مسلمان سے متنفر کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں ”اسلامی دہشت گردی“ کو نصاب کا حصہ بنانے کا مذموم منصوبہ بنایا گیا ہے اور ا س مقصد کے لئے جان بوجھ کر سیکولر کردار کی شہرت رکھنے والی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا چناﺅ کیا گیا جس پر یونیورسٹی میں طلباءیونین کی صدر گیتا کماری نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یونیورسٹی انتظامیہ انتہا پسند ہندوﺅں کی جماعت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے اشارے پر کام کر رہی ہے۔ یہ دین اسلام کو نشانہ بنانے کی گھناﺅنی سازش ہے۔ انتہا پسند ہندو تو دین اسلام کے مخالف ہیں لیکن دین اسلام کے پروکاروں کا دین اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں کیا کردار ہے نصاب میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اس سے پاکستان کی نئی نسل کو دین سے برگشتہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا توڑ ہو گا یا تقویت ملے گی اس سوال کے جواب میں “باب پاکستان“ اب تک کیوں نہیں بن سکا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔