رمضان شریف کی آخری ساعتیں اور ایک خبر....!!!
ماہ رمضان کی آخری ساعتیں کلمہ گو مسلمان کو اندر سے دل گیر کر دیتی ہیں‘ پھر جانے کیا ہو؟ کون کدھر کو چل پڑے‘ راستے تو سبھی کے ایک سے ہیں‘ انجام کار بھی ایک اور پھر دن قیامت کے سوال بھی ایک ہو گا‘ آج بتا¶ کس کی بادشاہی ہے؟ تمام مخلوقات حاضر ہوں گی‘ کوئی جواب نہیں دے سکے گا‘ ایسے میں اللہ کریم خود جواب دے گا‘ آج اس رب کی بادشاہی ہے‘ جو واحد ہے اور سخت گیر بھی۔ اللہ اللہ بڑے مشکل مراحل آنے والے ہیں‘ زندگی دھیرے دھیرے انہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہر دنیا دار مسلمان کا معاملہ یہ ہے کہ بقول میرانیس جنت انعام کر کہ دوزخ میں جلا‘ یہ رحم تیرا ہے‘ وہ عدالت تیری۔ رمضان کا آخری عشرہ اور اخبار بینی کرتے ہوئے ایک خبر پر میری نگاہ کیا ٹکی‘ کوئی کلیجے میں خنجر سا گاڑھ گیا‘ ہائے ہائے ناخلف بیٹے نے اپنے کزن کے ساتھ مل کر سگے باپ کو قتل کر دیا‘ پکڑا گیا‘ مقدمہ چلا تو سزائے موت سامنے کھڑی تھی‘ ایسے میں ماں رحمت کا استعارہ بن کر آئی اور باپ کے قاتل سگے بیٹے کا خون بہا معاف کر کے اسے بری کرا دیا۔ میرا دل بھر آیا‘ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے‘ میں صبح دم کامن روم میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا‘ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور دیر تک گریہ کرتا رہا‘ اللہ اللہ میرے دل کو اس واقعہ نے موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیا‘ اتنا گداز تو میں نے پہلے کبھی خود کو محسوس ہی نہ کیا تھا۔ ایسے میں میاں محمد بخش عارف کھڑی یاد آ گئے اور میں اپنے من میں گنگنانے لگا ....
باپ مرے سر ننگا ہوندا‘ ویر مرے کنڈ خالی
ماواں باج محمد بخشا کون کرے رکھوالی
پھر مجھے یاد آیا حجاج بن یوسف جیسا سفاک حکمران عالم نزاع میں موت اور حیات کی کشمکش جھیل رہا تھا‘ ماں سے محبت کرتا تھا‘ اس لئے وہ بھی قریب ہی بیٹھی تھیں‘ بیٹے کی حالت دیکھ کر رونے لگیں‘ حجاج مضبوط اعصاب کا مالک عالم نزاع میں بھی ماں سے مخاطب ہوا اور بولا ماں تم کیوں روتی ہو؟ تم تو حجاج بن یوسف کی ماں ہو۔ ممتا پلکوں پر ستارے لئے بولی بیٹا میں اس خاطر نہیں رو رہی کہ تو مر رہا ہے‘ میں تو اللہ کے حضور تیرے انجام سے ڈر کر رو رہی ہوں‘ تو نے بہت ظلم کئے ہیں‘ کیا اللہ تجھے معاف کر دے گا؟ یہ بات سن کر حجاج بولا تو پھر ماں اللہ کے اس فرمان کو کیسے لو گی‘ جس میں وہ کہتا ہے کہ میں ستر ما¶ں کے برابر شفیق ہوں‘ اچھا یہ بتا¶ کہ اگر میرا فیصلہ اللہ کریم تمہارے ہاتھ میں دے دے تو تم کیا کروگی‘ ماں بولی بیٹا میں تو ممتا ہوں تمہیں معاف کر دوں گی‘ حجاج نے کہا تو پھر جو اللہ ستر ما¶ں کے برابر شفیق ہے‘ وہ مجھے بخش نہ دے گا؟؟ تاریخ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے میں نے متذکرہ واقعہ ماں کی عظمت و بزرگی کے لئے رقم کیا ہے‘ سفاک اور ظالم لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘ اس سے کوئی بحث نہیں‘ لیکن میرا من کہتا ہے اس گئے گزرے دور میں جب ناخلف‘ سنگدل اور سفاک بیٹا سگے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو ماں کا رحمتوں سے لبریز کردار سامنے آتا ہے‘ وہ دل پر پتھر رکھ کر اور اپنے جیون ساتھی کا دکھ روگ بنا کر بھی سگے بیٹے کے لئے عافیت کا پیغام بن جاتی ہے۔ اس کے اردگرد روشنی کا ایک ہالہ ہے جو دراصل عرش سے اترا ہوا اک عافیت کا گہوارہ ہے‘ اللہ کریم نے اسے انسان کے لئے رحمتوں کا خزینہ بنا کر نازل کیا ہے اور باپ اللہ اللہ کیا ہستی ہے؟ اس کی ایک چھوٹی سی پہچان دیکھیے کبھی اپنی اولاد سے حسد نہیں کرتا‘ بیٹا مرتبے میں اس سے کہیں زیادہ بڑھ جائے تو پھولے نہیں سماتا‘ اس کی دعا بچوں کے حق میں ماں سے بھی پہلے قبول ہوتی ہے۔ وہ اپنی کمائی ہوئی ساری عزت‘ دولت‘ شہرت اور سیادت اولاد کی جھولی میں ڈال کر دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں جیسے سرخرو ہو کر جا رہا ہو۔ پل پل کی خیر مانگنے والا اور اولاد کے دلوں میں قرار کی طرح براجمان ہونے والا باپ ہی ہے‘ ماں اور باپ دونوں اولاد کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو عرش پر قبولیت کے نکارے بجنے لگتے ہیں‘ فرشتے سرگوشیاں کرتے ہیں‘ یہ کون ہیں جو اللہ کے قرب میں دوسروں کی خیر مانگ رہے ہیں اور بارگاہ ایزدی سے قبولیت ان پر نچھاور ہو رہی ہے۔ میں ایک استاد ہوں‘ کلاس میں پڑھاتے ہوئے بچوں کو ہمیشہ نصیحت کرتا ہوں‘ آپ لوگوں کے پیر اور مرشد ایک نہیں دو ہیں اور وہ گھر میں ہی ہیں‘ ان کی دعائیں لینے کے لئے بہت زیادہ خدمت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ ماں باپ اپنے بچوں کے اظہار محبت سے ہی خوش ہو جاتے ہیں‘ ان سے محبت کریں اور اس کا اظہار کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیں۔ قرآن کریم نے کہا والدین کے ساتھ احسان کرو‘ قرآن کی اصطلاح میں احسان یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو‘ اس میں ماں باپ کو ترجیح دو‘ اور ماں باپ تو کبھی مرتے بھی نہیں‘ یہ ہمیشہ کے لئے آپ کے معاون و مددگار ہوتے ہیں‘ ان کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے لئے ایصال ثواب بہترین طریقہ ہے۔ نماز کے بعد دعا میں ان کو یاد کریں‘ بستر پر لیٹے لیٹے آنکھیں بند کر کے انہیں اپنی یادوں اور دعا¶ں میں لائیں‘ ان کو یاد کرنے سے اگر اطمینان قلب نصیب ہو تو یقیناً یہ آپ کے ہمراہ ہیں اور مرنے کے بعد بھی آپ کے پل پل کے نگہبان بھی ہیں۔
ان متذکرہ بالا کھلے حقائق کے باوجود جانے ہماری نوجوان نسل ماں باپ کے تقدس اور بزرگی کا ادراک کرنے میں کیوں کمزور ثابت ہو رہی ہے‘ اس ضمن میں کچھ تلخ حقائق بھی ہیں‘ جن کی طرف حضرت علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے‘ ان کے مطابق فیضان نظر اور مکتب کی کرامت تو بعدازاں منصہءشہود پر آتی ہے‘ آداب فرزندی سب سے پہلے گھر سے سکھائے جاتے ہیں‘ کوئی چھوٹا سا بچہ باپ کو اپنے والد بزرگوار کی عزت و توقیر کرتے ہوئے دیکھے تو یہ اس کے لئے رول ماڈل بن جاتا ہے۔ آداب فرزندی سکھانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور اب ہمارا معاشرہ اس نہچ پر پہنچ چکا ہے کہ جب گھر کے چھوٹے بچوں کے سامنے بوڑھے دادا، دادی کو ایدھی اولڈ ہوم میں لے جاکر چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسا کون کرتا ہے؟ وہ جوان میاں بیوی کہ جو اپنے بچوں کے علاوہ گھر میں کسی اور کا وجود برداشت نہیں کرتے، جوان شادی شدہ بیٹا اپنے بوڑھے والدین کو ساتھ رکھنا چاہتا ہے لیکن بیوی کا حکم ٹال نہیں سکتا، ہمارے معاشرے کے ہر ایلیٹ کلاس کے گھرانے کی یہی کہانی ہے۔ ایسے میاں بیوی کو یاد رکھنا چاہیے کہ کل کلاں ان کے بچے بھی جوان اور شادی شدہ ہوکر انہیں دادا، دادی کی طرح اولڈ ہوم میں چھوڑ آئیں گے۔ ان حالات میں باپ کے تقدس اور ماں کی عظمت کا ادراک بچوں کو کیسے ہو؟ جب گھر میں بچوں کو آداب فرزندی ہی نہ سکھائے جائیں تو پھر جوان ہو کر ان کے طرز عمل سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جس جوان شادی شدہ بیٹے نے بیوی کے کہنے پر ماں باپ کو گھر سے اٹھا کر ایدھی ہوم پہنچا دیا، اس نے بھی وہی کام کیا جو ایک ناحلف اور سنگدل بیٹے نے باپ کو موت کے گھاٹ اتار کر انجام دیا، یاد رکھےے بچوں کی تربیت کتابوں اور وعظ و نصائح سے نہیں بلکہ ماں باپ کے طرز عمل، قول و فعل اور ظاہری کردار سے ہوتی ہے۔ والدین ہی بچوں کے لےے ایسا رول ماڈل ہیں کہ جو تا زندگی ان کے دلوں اور دماغ پر نقش رہتا ہے۔