آزاد کشمیر میں آئینی ترامیم
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے صدر راجہ فاروق حیدر خان تیرویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی فرست میں سالار جمہوریت سابق صدر اور وزیر اعظم سردار سکندر حیات سے ملنے فتح پور، تھکیالہ ، سالار ہاﺅس پہنچے، ملاقات کی اور خیریت دریافت کی۔ سردار سکندر حیات نے راجہ فاروق حیدر کو ایکٹ 1974ءمیں ترمیم اور ختم نبوت کا بل پاس کروانے پر دلی مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے حکومت پاکستان اور مسلم لیگی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ 1985ءمیں اپنے دور حکومت میں جب سینئر مسلم کانفرنسی وزراءکے باوجود آپ راجہ فاروق حیدر خان پر اعتماد کرتے تھے اور اپنی عدم موجودگی میں قائم مقام وزیر اعظم کے منصب پر آپ کو نامزد کیا جاتا تھا۔ راجہ فاروق حیدر نے کہا قومی سلامتی کمیٹی مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں، جن کی مہربانی سے سرخرو ہوا۔ آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ نے بھی مجھ پر اعتماد کیا۔ پورے ریاست آزاد کشمیر میں مالی ، انتظامی اختیارات حاصل ہونے پر جشن منایا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست کے مالی اور انتظامی خود مختاری کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے تحریک آزاد ی کشمیر پر مثبت اثر پڑے گا۔ سابق وزیراعظم اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ حکومت نے آئینی ترامیم میں اپوزیشن کو نظر انداز کر کے آمرانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔ مشاورت کے بغیر اتنا بڑا قدم شکوک و شبہات کا باعث بنا۔ حالانکہ ایکٹ 1974ءتمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نافذ ہوا تھا۔ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ شدید مذاحمت کی جائے گی۔ عید کے بعد ساری سیاسی جماعتوں سے مل کر لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر اور قائد حزب اختلاف چوہدری یٰسین نے کہا کہ ہم بھی آئینی ترمیم کے حق میں تھے۔ اس سلسلہ میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت سے مسوّدہ تیار کیا گیا تھا۔ جس کو راجہ فاروق حیدر نے نظر انداز کیا۔ اور نیا مسودہ تیار کرایا جو کہ زیادتی ہے۔ عید کے بعد آل پارٹی کانفرنس بلائی جائے گی۔ موجودہ ترمیم تقسیم کشمیر کی ترمیم ہے۔ درحقیقت ایکٹ 1974ءمیں ترمیم کشمیر کونسل کے اختیارات میں کمی ، آزاد کشمیر کے عوام کا مشترکہ بنیادی مطالبہ تھا۔ آزاد کشمیر کی ساری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے طور طریقے سے آواز بلند کرتے رہے۔ لیکن ترامیم کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات تیار کی ہیں۔ لیکن سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید وفاق سے ایکٹ 1974ءمیں ترامیم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حالانکہ وفاق میں ان کی اپنی حکومت تھی۔ ختم نبوت بل کی طرح یہ اعزاز بھی راجہ فاروق حیدر خان کو حاصل ہوا۔ بلا شبہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت کا بڑا اور سنہری کارنامہ ہے۔ جو مدتوں یاد رہے گا۔
آئینی ترامیم کے بعد کشمیر کونسل کے بیشتر انتظامی مالیاتی قانون سازی سمیت 52 سبجیکٹ کے اختیارات آزاد کشمیر حکومت اور کشمیر اسمبلی کو منتقل ہو گئے ہیں جن میں ٹیکس Collection بھی شامل ہے۔ کشمیر اسمبلی میں 4 ممبران کا اضافہ بھی کیا گیا۔ مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستوںکو بھی تحفظ دیا گیا ہے جو کہ بنیادی مسئلہ کشمیر کے حل اور حق خود ارادیت کے حصول تک ہے۔ جموں کشمیر کونسل ختم نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے آئینی اختیارات مشاورتی حد تک محدود کر دیئے گئے ہیں۔
پاکستان میں حکومتیں اپنی مدت کم ہی پوری کرتی رہی ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر اسمبلی اور حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ جیسے سردار سکندر حیات خان 2 سردار عبدالقیوم خان نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری عبدالمجید نے ایک ، ایک بار اپنی مدت پوری کی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں یہ بات واضح ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکالا جاتا ۔ پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام خطہ کشمیر کی تعمیر و ترقی عوام کے حقوق ، بنیادی سہولتوں ، لاءاینڈ آرڈر کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن افسوس ماضی کی ساری وفاقی حکومتوں نے غفلت یا جان بوجھ کر کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ مسلم لیگ اور راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت نے ریاست کو نئی منزل کی جانب گامزن کیا ہے۔ اب توقع ہے کہ آئینی اور مالی بحران کا خاتمہ ہو گا۔ آزاد کشمیر کی منتخب حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی ، مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب اپنی توجع مبذول کرائیں گی اور عوام تک ترقی کے ثمرات پہنچائیں گی۔ اس شاندار کامیابی پر میاں محمد نوازشریف ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، سابق وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ یقینا مبارک باد کی مستحق ہے۔