جمعرات ‘ 29 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 14 جون 2018ء
من پسند اشیائ، گاڑیاں اور مراعاتیں، سندھ کے نگراں وزراءکے فرمائشی پروگرام کا آغاز ہو گیا
قربان جایئے! ان نظام سقوں پر جن کو دو ماہ کی حکومت کیاملی ان کے مزاج ہی بدل گئے۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے ان کو وزارتیں سنبھالے انہوں نے مطالبات کی کھڑکیاں بھی کھول دی ہیں۔ انہیں عبوری حکومت میں نگران وزیروں کے طور پر رکھا گیا ہے مگر یہ دودھ کی نگرانی پر بیٹھی بلیوں والی بات سچ ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔ اتنی پھرتیاں تو الیکشن جیت کر وزیر بننے والے وزراءبھی نہیں دکھاتے وہ بھی چند روز آرام کرکے ٹھنڈا کرکے کھاتے ہیں، کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ جلد بازی کا انجام برا ہوتا ہے۔ گرم گرم کھانے سے منہ جل جاتا ہے مگر یہاں عبوری نگران وزیروں نے تو کرسی پر بیٹھتے ہی اپنے فرمائشی پروگرام جاری کر دیئے ہے۔کوئی ایئرپورٹس پربلا روک ٹوک جہاز تک آنے جانے کی سہولت مانگ رہا ہے۔ کوئی نیا دفتری عملہ طلب کر رہا ہے کسی کو اپنے کاروباری ادارے کیلئے پولیس کی اضافی نفری درکار ہے۔ کوئی نئی گاڑیاں ڈھونڈ رہا ہے۔ اب کون ان نظام سقوں سے کہے کہ جناب آپ لوگ یہاں 5برس کیلئے نہیں آئے یہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات والا معاملہ ہے۔ اس لئے جو کچھ ملا ہے اسی سے کام چلائیں۔ ویسے بھی آپ لوگ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ اطمینان سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں یہی چونچلے کرنے تھے تو الیکشن لڑ کر سیدھے سبھاﺅ وزیر بن کر کیوں نہیں آئے ۔ پھر جو جی چاہتا کرتے کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔
٭....٭....٭
شیخ رشید کی نااہلی کی درخواست مسترد
اس فیصلے کے بعد شیخ رشید اب راولپنڈی کے دو حلقوں سے الیکشن لڑنے کے اہل ہوں گے، یہ فیصلہ آنے کے بعد شیخ جی کے مرجھائے مرجھائے سے چہرے کی رونق پھر بحال ہو گئی ورنہ چند روز سے ان کے چہرے پر مرونی سی چھائی ہوئی تھی، یوں لگتا تھا کہ وہ اثاثے چھپانے کے الزامات سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ عام لوگ ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ شیخ جی کے پلے صرف لال حویلی ہی ہے مگر اب عدالت نے ان کے ظاہر کئے اثاثوں کو درست تسلیم کر لیا ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ شیخ رشید فارمز اور اراضی کی کھوج لگاتا پھرے۔ شکیل اعوان نے کھوج لگایا ہوگا۔ اب وہ جانیں اور عدالت۔ آج ایک بار پھر لال حویلی میں رت جگا ہو گا۔:
یاران خرابات دھوم مچانے آئیں گے۔ ہاﺅہو کا رنگ جمے گا۔ ویسے بھی شیخ جی اس وقت تحریک انصاف کے نفس ناطق بنے ہوئے ہیں۔ ان کے جلسوں کی جان ہیں اب انکے جلسوں میں بھی تحریکی کارکن آکر ان کی شان بھی بڑھائیں گے۔ ایسے سیاستدانوں کیلئے ہی ظفر علی خان نے برسوں پہلے کہا تھا:
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گومشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
پہلے جب نوازشریف کی آندھی چلی تو شیخ انکے ساتھ ہوئے آج کل عمران خان کی آندھی چل رہی ہے تو انکے ساتھ ہیں....۔
الیکشن ہوں گے ہوتے نظر نہیں آئیں گے: حافظ حسین احمد
جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد ایک خوش بیان سیاستدان ہیں ورنہ مولوی اور خوش گفتاری دونوں میں زمین اور آسمان کا فاصلہ ہے۔ زاہد خشک کو ٹھٹھول اور مذاق سے کیاعلاقہ۔ مگر حافظ جی جب بولتے ہیں کمال کا بولتے ہیں۔ ان کا مزاحیہ جملہ بھی اپنے اندر گہرائی رکھتا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ہماری سیاست کے لوٹا ازم کو تبدیلی کا نام دیا اور کہا کہ تبدیلی آچکی، لوٹے ادھر اُدھر جا چکے۔ واقعی اب اس سے بڑی تبدیلی تو صرف موسم میں آنی تھی وہ بھی آ چکی ہے قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے اور سیاسی موسم بھی گرم ہو چکا۔ الزامات کی سیاست سے لے کر خرافات کی سیاست تک عروج پر ہے۔ ہر پارٹی نے لانڈری کھول رکھی ہے جہاں ملک بھر کے گندے لوٹے دھلائی کے بعد پاک قرار دیئے جا رہے ہیں۔ ہر پارٹی : ”سب سے بہتر دھوئیں ”ہم“فرق صاف ظاہر ہے“کا بورڈ لگائے ہوئے ہے۔ ان حالات میں اگر الیکشن ہوئے بھی تو واقعی ان میں کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ یوں بعد میں کئی سیاستدان اور پارٹیاں:
پکڑ ے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
کہتے پھریںگے۔ حالات و واقعات سے یہی لگ رہا ہے اس بار کوئی غیبی ہاتھ سب کچھ کروائے گا اور کسی کو نظربھی نہیں آئے گا۔ ہماری قدیم سیاسی اشرافیہ اسے فرشتوں کا عمل دخل بھی کہتی ہے۔ جب ساری سیاست ہی پاک باز لوگوں کے ہتھے چڑھے گی تو پھر الیکشن بھی یہ پاکباز لوگ غیبی مدد سے ہی جیتیں گے۔
٭....٭....٭
عید پر گھر جانے والے پردیسی ٹرانسپورٹروں کو غنڈہ ٹیکس دینے پر مجبور
رمضان میں لٹنے کا رونا رونے والے پاکستانیوں کی درد بھری داستان ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ لاکھوں پاکستانی شہری جو بڑے شہروں میں کام کرتے ہیں گھر سے دور کام پر مجبور ہیں ان کا عید پر گھر جانا بھی ایک امتحان بن گیا ہے۔عید کا رش شروع ہوتے ہی منافع خور تاجروں کی طرح ٹرانسپورٹروں نے بھی کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے۔ یوں بے چارے پردیسی مہنگے داموں ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ پیسے کی یہ حرص ہمارے معاشرے میں اتنی رچ بس گئی ہے کہ ہر شخص دوسرے کی کھال کھینچنے پر تلانظر آتا ہے۔اور کوئی کسی کو رعایت دینے کو تیار نہیں ملتا۔ یہ ٹرانسپورٹ بھی تاجروں کی طرح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا تہیہ کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عوام یہاں بھی خاموشی سے ذبح ہو رہے ہیں کیا مقامی انتظامیہ کا ان بے لگام ٹرانسپورٹروں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ انہیں کوئی لگام نہیں ڈال سکتا۔ کیا ہمارے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون دائمی طور پر نافذ ہو چکا ہے۔ ہر سرمایہ دار اور طاقتور غریبوں کا ہی خون چوستا پھرتا ہے۔ حکمران ان خون چوسنے والی جونکوں کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے کیا یہ جونکیں انہی کی لگائی کوئی چیز ہیں۔
٭....٭....٭