عبادت اور تقویٰ
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہےں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پےدا کےا تاکہ تمہےں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرة)
ےہ آےت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغاےت ےہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ”تقویٰ “کی طرف پہنچا دے۔اس آےة مبارکہ مےں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بےان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہےں تخلےق کےا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربےت سے کوئی چےز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاءکے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گوےا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے مےں اس کی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاءاور اس کے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھےن منت ہے۔ وہ تخلےق نہ کرتا تو انسان پےدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربےت نہ کرے تو زندگی کا سفر اےک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔
ابتداءسے کرتا ہے کوئی تربےت ورنہ
آدمی اذّےت کے موسموں مےں مرجائے
جب ہم اسی کا دےا ہوا کھا رہے ہےں اور اسی کاعطاءکردہ اثاثہ استعمال کررہے ہےں تو پھر زندگی کے اےک اےک لمحے پر اس کا اختےار تسلےم کےوں نہےں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن مےں کےوں نہےں ڈالتے؟
بےضاوی علےہ الرحمة نے ےہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہےں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دےا تو اس کی علّت (وجہ)ےہ بےان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہےں پےدا کےا ہے۔ گوےا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہےں۔
جب اس نے ہمےں ”انسان “بناکر تخلےق کردےا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پےشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہےں۔
اےک اےک قطر ے کا مجھے دےنا پڑا حساب
خونِ جگر ودےعت مژگانِ ےار تھا
(غالب)
تقویٰ قلب کی اےک اےسی کےفےت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنےک کاموں کے انتخاب کا مےلان پےدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علےہ وآلہ وسلم نے اےک اپنے سےنہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرماےا ۔ تقویٰ کی جگہ ےہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کےفےت کاحصول ہے۔
نماز،روزہ ،حج ،زکوٰةتمام کی غرض وغاےت لفظ تقویٰ سے بےان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاءلےے ہےںچاہے وہ اس کے نام کی تسبےح پڑھنا ہو،جو چاہے اس کی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اس کی خاطر اس کی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہےں۔