علاقائی اور عالمی امن کی خاطر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی کردار ادا کریں
سنگاپور میں امریکہ اور شمالی کوریا کے سربراہان کی نتیجہ خیز ملاقات اور شہبازشریف کا پاکستان بھارت جامع مذاکرات پر زور
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے مابین گزشتہ روز سنگاپور میں تاریخی ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دونوں قائدین نے باہمی اعتماد کی فضا قائم رکھنے پر اتفاق کیا اور مختلف معاہدوں پر دستخط کئے۔ تقریباً 45 منٹ تک جاری رہنے والی اس میٹنگ میں شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاملہ سرفہرست رہا۔ اس سلسلہ میں امریکی اور شمالی کورین سربراہان کی میٹنگ کے بعد وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی جس میں شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاملہ زیربحث آیا۔ اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ سے کہا کہ دونوں ممالک مل جل کر تمام مسائل حل کرلیں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ملاقات کے نتیجہ میں شمالی کوریا سکیورٹی کے بدلے تمام ایٹمی ہتھیار ختم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بقول شمالی کوریا کے رہنماءکم جونگ ان بہت ذہین ہیں اور وہ انہیں وائٹ ہاﺅس میں مدعو کرینگے۔ امریکہ نے دنیا کے خطرناک ترین مسئلہ کو حل کردیا ہے۔ کم جونگ نے کہا کہ ہم نے اس ملاقات کیلئے تمام خدشات اور قیاس آرائیوں کو مسترد کیا‘ ہمیں یقین ہے کہ یہ ملاقات امن کیلئے بہت مفید رہے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ شمالی کوریا سمٹ سے پہلے جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے امریکی صدر ٹرمپ کو فون کیا اور انکے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ملاقات ختم ہوتے ہی نتائج سے آگاہ کرنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو جنوبی کوریا بھیجیں گے۔ پاکستان نے امریکہ اور شمالی کوریا کے سربراہان کی ملاقات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ محمد فیصل نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ توقع ہے یہ ملاقات خطے میں امن و استحکام کا سبب بنے گی۔
ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور استعمال کے معاملہ میں امریکہ کی بطور خاص دو ممالک شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ سخت کشیدگی رہی ہے جن پر امریکی ایماءپر اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد اپنے ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر کسی مفاہمت پر آمادہ نہ ہوئے اور ہر امریکی دھمکی کا اسی کے لب و لہجے میں جواب دیتے رہے۔ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کے ذریعے ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی تاہم ایران نے اس مقصد کیلئے آنیوالا امریکی ڈرون ہی مار گرایا اور اس کا ملبہ نمائش کیلئے رکھ دیا۔ امریکہ ایران اس کشیدگی کے پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے اور اس کا ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ پایہ¿ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اسی کشیدگی کی فضا میں ایران میں حسن روحانی اقتدار میں آئے تو علاقائی اور عالمی امن کی خاطر انہوں نے امریکہ کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کیا جو بالآخر ایٹمی تعاون کے معاہدہ پر منتج ہوا۔ اس معاہدے میں پانچ دیگر ایٹمی ممالک بھی شریک ہوئے جس کے تحت ایران اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر رضامند ہوا اور اسکے عوض اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کردی گئیں۔ یہ معاہدہ امریکی صدر باراک اوبامہ کے اقتدار کی دوسری ٹرم کے آخری مراحل میں ہوا جس پر عملدرآمد کے پیرامیٹرز ہی طے ہورہے تھے کہ امریکی انتخابات میں ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے جنہوں نے ایٹمی تعاون کے متذکرہ معاہدے پر عملدرآمد کیلئے سخت موقف اختیار کیا تو امریکہ اور ایران کے مابین پھر کشیدگی کی فضا ہموار ہونے لگی۔ ٹرمپ نے متذکرہ معاہدہ ختم کرنے اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تو ایران کی جانب سے بھی انہیں مسکت جواب دیا گیا۔ نتیجتاً امریکہ نے گزشتہ ماہ خود کو ایٹمی تعاون کے معاہدے سے باہر نکالنے کا اعلان کردیا اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔
اگرچہ اس معاہدے پر دستخط کرنیوالے دیگر ممالک ایران کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے پر قائم ہیں اور اس پر عملدرآمد کے بھی متمنی ہیں جس کا گزشتہ ہفتے شنگھائی سربراہی کانفرنس میں بھی تقاضا کیا گیا ہے تاہم امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی کا گراف اب بڑھتا ہوا نظر آتا ہے جو علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ اس سے بھی زیادہ سنگین صورتحال کا امریکہ اور شمالی کوریا کی کشیدگی کے باعث ایک ماہ قبل تک پوری دنیا کو سامنا رہا ہے۔ یہ کشیدگی بھی ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد زیادہ بڑھی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ ٹرمپ شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتے تو شمالی کوریا کی طرف سے کسی نئے ایٹمی ہتھیار کے تجربے کا اعلان سامنے آجاتا۔ یہ حقیقت ہے کہ شمالی کوریا نے ہر قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں سبقت حاصل کرلی تھی اور ہائیڈروجن بم سمیت ہر قسم کے جدید ایٹم بم رکھنے والی قوت بن گیا تھا چنانچہ پوری دنیا کے ممکنہ ایٹمی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں آنے کے خطرات روشن ہورہے تھے جس پر تمام عالمی قیادتوں کو تشویش لاحق ہوئی اور اس حوالے سے ٹرمپ کی انتہاءپسند سوچ کو بھی مطعون کیا جانے لگا۔
ایسی سخت کشیدگی کے ماحول میں ہی گزشتہ ماہ اچانک یہ خبر آگئی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے مابین 12 جولائی کو سنگاپور میں ملاقات طے ہوگئی ہے جس میں شمالی کورین لیڈر اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا اعلان کرینگے۔ یہ اطلاع پوری دنیا کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث بنی اور تمام عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کی توجہ اس مجوزہ ملاقات پر مرکوز ہوگئی جسے علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت کے طور پر تعبیر کیا جانے لگا۔ اور تو اور جنوبی کوریا نے علاقائی اور عالمی امن کیلئے ٹھوس کردار پر امریکی صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کا بھی مستحق قرار دے دیا۔ اسی دوران انٹرنیشنل میڈیا پر اچانک یہ خبر بھی آگئی کہ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے مابین سنگاپور میں طے شدہ ملاقات منسوخ ہوگئی ہے۔ اس پر علاقائی اور عالمی امن کے خواہاں حلقوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے ٹرمپ انتظامیہ کی معاملہ فہمی اور بہتر حکمت عملی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ”آتش فشاں“ پھٹنے سے پہلے ہی امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین دوبارہ مفاہمت کا راستہ ہموار کرلیا گیا اور بالآخر 12 جولائی کو پہلے سے طے شدہ یہ ملاقات ہو کر رہی جس میں شمالی کورین لیڈر کم جونگ ان نے اپنے ملک کے سارے ایٹمی ہتھیار ختم کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کردیا۔ اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالا خطرہ یقنی طور پر ٹل گیا ہے جو اقوام عالم اور عالمی قیادتوں کیلئے ایک مثبت پیغام ہے اور ٹرمپ علاقائی اور عالمی امن کی جانب پیش رفت کرنے پر یقیناً نوبل امن انعام کے مستحق ٹھہریں گے۔ تاہم علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات ابھی مکمل طور پر ٹلے نہیں ہیں۔ اس وقت امریکہ اور ایران کے مابین ازسرنو شروع ہونیوالی کشیدگی بھی ایک بڑے خطرے کی صورت میں موجود ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ¿ کشمیر تو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے ہمہ وقت خطرے کی گھنٹی بجاتا رہتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کے باعث انکی باہمی کشیدگی ایٹمی جنگ کی نوبت لا سکتی ہے جو اس خطہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے۔ اس کشیدگی کو بھارت کی انتہاءپسند مودی سرکار کی جنونی پالیسیوں سے زیادہ فروغ حاصل ہورہا ہے اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے علاقائی اور عالمی امن کا کریڈٹ لینے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مودی سرکار کو بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ انہیں اپنا یہ کریڈٹ برقرار رکھنے اور دنیا کو تیسری ممکنہ عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعہ¿ کشمیر کو طے کرانے میں بھی بہرصورت کردار ادا کرنا ہوگا اور مودی سرکار کا سرپرست ہونے کے ناطے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دباﺅ ڈالنے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے گزشتہ روز اسی تناظر میں سنگاپور سمٹ کو قابل تقلید مثال قرار دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین بھی جامع مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انکے بقول امریکہ اور شمالی کوریا ایٹمی جنگ کے دہانے سے واپس آسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت کشمیر پر دوبارہ بات چیت کا آغاز نہ کرسکیں۔ پاکستان تو یقیناً بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اصل مسئلہ بھارتی پالیسیوں اور سوچ کا ہے جو پاکستان دشمنی پر مبنی ہے اور مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ ختم کرنے تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اگر ٹرمپ بھارتی جنون کو روکنے اور اسے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اقوام عالم میں ان کا تشخص عالمی امن کے پیامبر کے طور پر استوار ہو جائیگا۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کی اپنی پالیسیاں بھی پاکستان کی سلامتی کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہیں تاہم وہ پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر یواین قراردادوں کی روشنی میں حل کرا دیتے ہیں تو دنیا انہیں ایک مسلمہ عالمی لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی۔