نریندر مودی سے تعاون کا مشورہ
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اپنے تازہ مضمون Reworking the idea of Pakistan میں وزیراعظم نوازشریف کو مشورہ دیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ویژن کے تحت قریبی اتحاد Closer Union تخلیق کرنے کی کوشش کریں۔ حسین حقانی نے جواہر لعل نہرو کی علی گڑھ یونیورسٹی میں مارچ 1948 کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جواہر لعل نہرو نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیںکہ بھارت پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے وہ غلط کہہ رہے ہیں اگر ہم پاکستان کو ختم کرنا چاہتے تو پھر ہم نے اس کے الگ وجود کی اجازت کیوں دی؟ پاکستان کے وجود کو روکنا اس کے معرض وجود میں آنے کے بعد ختم کرنا زیادہ آسان تھا۔ تاریخ میں واپسی کا سفر ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بھارت کے مفاد میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور خوشحال ہو جس کے ساتھ ہم اچھے تعلقات قائم کرسکیں۔ حسین حقانی نے اپنے مضمون میں آگے چل کر جواہر لعل نہرو کا یہ فقرہ بھی نقل کیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان غیرفطری طورپر وجود میں آیا ہے تاہم یہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کی خواہش تھی کہ پاکستان قائم ہو۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر نعل نہرو کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جو تقریر مسٹر حقانی نے نقل کی ہے اس میں ایک طرف تو نہرو پاکستان کو ایک غیر فطری ملک قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف وہ پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں ۔حقانی حسین جواہر لعل نہرو کے ’’پاکستان نواز‘‘ ویژن کی تعریف تو کر رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ یہ جواہر لعل نہرو تھے جن کی وزارت عظمیٰ کے دوران جونا گڑھ کو تقسیم ہند کے اصول کی نفی کرتے ہوئے زبردستی بھارت میں شامل کرلیا گیا۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ہی کشمیر میں فوجیں بھیج کر بزور طاقت اس پر قبضہ کر لیا۔ پھر جب کشمیری مجاہدین نے پاک فوج کی مدد سے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی جواہر نہرو ہی تھے جو کشمیر میں سیز فائر کرانے کے لئے اقوام متحدہ بھی گئے اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیریوں کو ان کا حق خود اختیاری دینے کا اعلان کیا۔ جواہر لعل نہرو نے سرینگر کے لال چوک میں خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں سے عہد کیا کہ انہیں ان کا حق خوداختیاری دیا جائے گا اور کشمیر میں استصواب رائے کرایا جا ئے گا۔ نہرو کی درجنوں تقریریں ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں انہوں نے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے 1971ء میں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر کے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا اور پھر بڑے فخر سے اعلان کیا کہ ’’ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے‘‘
حسین حقانی نے اپنے اس مضمون میں پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی ایک تقریر کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سہروردی نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی ملک نہیں بنانا چاہئے ۔ 6 مارچ 1948ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سہروردی نے کہا تھا کہ پاکستان کے مستقبل کا انحصار پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلقات پر ہے۔ حسین شہید سہروردی کے علاوہ بھی کئی پاکستانی لیڈروں نے بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن بعد کے واقعات سے ثابت ہوا کہ نہرو سمیت سارے بھارتی لیڈر عملاً جو کرتے رہے اس سے پاکستان کمزور ہوا۔ پاکستان کے ساتھ بھارت نے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا جو سمجھوتہ کیا اس کی خلاف ورزی اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیا جا رہا۔ حسین حقانی نے اپنے مضمون میں یر ورکنگ دی آئیڈیا آف پاکستان ‘‘ میں اسلام اور فوج کو پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے خیال میں طالبان اور پاکستان میں فرقہ واریت اسلامی نظریہ اور فوج کی بالادستی تسلیم کرنے کا شاخسانہ ہے۔
موصوف نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر نہرو کے ویژن کے مطابق پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں۔ حسین حقانی نوے کی دہائی میں نواز شریف کے میڈیا ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ نواز شریف کی پہلی حکومت میں سری لنکا میں ہائی کمشنر بھی رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو چھوڑ کر بینظیر حکومت جائن کر لی تھی۔ بینظیر کی دوسری حکومت میں وہ سیکرٹری اطلاعات کے طور پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ حسین حقانی جن کی تربیت اسلامی جمعیت طلباء کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے ہوئی تھی اب اسلام کو پاکستان کے مسائل کی اساس قرار دے رہے ہیں ان کی حالیہ کتابوں اور دوسری تحریروں میں یہی پیغام ملتا ہے۔ ممکن ہے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بھارت کو مستقل دشمن سمجھنے کا تصور بدلنے کے لئے حسین حقانی وزیراعظم نواز شریف کے پھر قریب آ جائیں۔ دونوں مل کر پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلوں کو قربتوں میں بدلنے کی مشترکہ جدوجہد کریں۔