عوام کی حاکمیت کے علمبردار…سردار عبدالرب نشترؒ
سردار عبدالرب نشتر کی یاد یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اب ایسے رہنما کیوں نایاب ہوگئے۔ سیاست کو عبادت سمجھنے والے‘ اعلیٰ اقدار کے علمبردار‘ اصول پرست‘ بے لوث غرضیکہ وہ تمام صفات جو مسلمان قوم کے کسی رہنما میں ہونی چاہئیں‘ وہ ان کا مرقع تھے۔ صوبہ سرحد میں انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نائب تصور کیا جاتا تھا۔ 1937ء میں بابائے قوم نے وہاں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا تو سردار عبدالرب نشتر پہلے شخص تھے جنہوں نے انکی آواز پر لبیک کہا۔ انہوں نے اپنی جہد مسلسل اور زورِ خطابت کے طفیل مسلم لیگ کے جسد میں ایک نئی روح پھونک دی‘ سرخپوشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک قلیل عرصہ میں مسلم لیگ کو مقبول عام جماعت بنا دیا۔ قائداعظمؒ کے وصال اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد انگریزوں کی پروردہ افسر شاہی اور مہم جوئی کے خبط میں مبتلا عسکری اشرافیہ نے بابائے قوم کے معتمد ساتھیوں کو امور مملکت سے بے دخل کرنے کی سازشیں شروع کردیں۔ زمام اقتدار پر بتدریج وہ عناصر قابض ہوتے چلے گئے جن کا تحریک پاکستان سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا اور نہ ہی وہ قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد پر ایمان رکھتے تھے۔ 16اپریل 1953ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا۔ انکی کابینہ میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے۔ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو بلا کر وزیراعظم نامزد کردیا گیا۔ ملک غلام محمد نے پوری کوشش کی کہ سردار عبدالرب نشتر نئی کابینہ میں شامل ہوجائیں لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ 24اکتوبر 1954ء کو ملک غلام محمد نے پوری آئین ساز اسمبلی ہی برطرف کر ڈالی اور محمد علی بوگرہ کو از سر نو حکومت بنانے کی دعوت دیدی۔ اس کابینہ میں جنرل محمد ایوب خان‘ میجر جنرل اسکندر مرزا اور ڈاکٹر خان صاحب بھی شامل تھے۔ یوں ایک حاضر سروس آرمی چیف کی کابینہ میں شمولیت سے پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت کی داغ بیل پڑ گئی۔ ملک غلام محمد نے سردار عبدالرب نشتر کو گورنر جنرل ہائوس بلا کر مختلف حربوں‘ دلائل حتیٰ کہ دھونس دھمکیوں سے اس نئی وزارت میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر آپکے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے اپنی سوانح حیات میں اس ملاقات کی رودادیوں بیان کی ہے: ’’غلام محمد نے ہم سے وزارتیں چھین لیں۔ آئین ساز اسمبلی بھی توڑ دی اور ہمارے پاس قوم کی جو بھی امانت تھی‘ سب آمرانہ انداز میں سلب کر لی ۔ سب کچھ لے لیا اور اب صرف میرا ذاتی وقار باقی تھا۔ سو وہ بھی آج پامال ہوگیا۔ میں اُنکے ذاتی الفاظ تو دوبارہ دہرا نہیں سکتا۔ یہی سمجھو کہ غیر شریفانہ الفاظ سے نوازا گیا لیکن مجھے اسکا ذرہ بھر صدمہ نہیں کیونکہ یہ میری ذاتی بے عزتی تھی۔ قوم کی امانت جو اُس نے چھینی ہے‘ میں اسے ہرگز معاف نہیں کرسکتا۔ میں ساری زندگی اُس کا مقابلہ کرتا رہوں گا۔‘‘ بعدازاں حکومت نے انہیں اہم ممالک میں سفارت کی پیشکش کی جسکے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’نہ میں وزارت کا بھوکا ہوں نہ سفارت کا۔ عیش اور تنعم کی زندگی میں نے کبھی بسر نہیں کی۔ لہٰذا ان دونوں چیزوں سے محرومی میرے لئے ذرا بھی تکلیف دہ نہ ہوگی۔‘‘ رئیس احمد جعفری کے بقول آپ نے یہ کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا کہ ’’نہ جانے ہر شخص کو یہ لوگ بکائو مال کیوں سمجھتے ہیں۔‘‘ انہی دنوں ملکی حالات پر دل گرفتگی کے عالم میں کہا گیا ان کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہوگیا ؎
بس اتنی سی خطا پر‘ رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
عوام نے سردار عبدالرب نشترؒ کو بھی اپنے پیار کا آب حیات پلایا تھا اور یہ وہی عوام ہیں جن میں سو میں سے ننانوے آدمی نہیں جانتے کہ سردار نشتر کے ایک ہمعصر رہنما اور پاکستان کے نہایت طاقت اور بااختیار سربراہ مملکت ملک غلام محمد کہاں دفن ہیں۔‘‘
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس رفیق خاص کے 115ویں یوم ولادت کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘آبروئے صحافت اور ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کی جبکہ سردار عبدالرب نشتر کے پوتے محمد غالب نشتر تقریب میں شرکت کیلئے اسلام آباد سے بطور خاص تشریف لائے۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے مختصر خطاب میں سردار عبدالرب نشتر کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب اس بطل جلیل کے یوم ولادت کی خوشی میں منعقد کی گئی ہے جس نے صوبہ سرحد میں گاندھی کے چیلوں کو شکست دی تھی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے زمانہ ٔطالب علمی کے دوران متعدد بار انہیں مال روڈ پر پیدل چلتے اور باغ جناح کی سیر کرتے دیکھا۔ انکے ہمراہ نہ تو کوئی اے ڈی سی ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی رکھوالا۔ وہ کسی بھی قسم کے پروٹوکول سے بے نیاز تھے۔ انکی اصول پرستی کا یہ عالم تھا کہ اپنے بیٹے کو سکول جانے آنے کیلئے سرکاری گاڑی کے استعمال کی سختی کے ساتھ ممانعت کر دی تھی۔ میں نے زندگی میں اُن جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ۔ایسے بچے تو مائیں خال خال ہی جنتی ہیں۔ تقریب میں سابق صدر مملکت محترم محمد رفیق تارڑ ‘پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد اور محمد غالب نشتر نے بھی اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض پروفیسرڈاکٹر پروین خان نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔