خطے میں پاکستان کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی
سہیل عبدالناصر
مولانا فضل الرحمٰن خلیل جہاد افغانستان کے ان قائدین میں سے ہیںجنہیں افسانوی کرداروں کا درجہ ملا۔ روسی سامراج کے خلاف جہاد ہو یا افغان طالبان کی جدوجہد،ہر حوالے سے انہیں قابل احترام مقام حاصل ہے۔جہاد افغانستان کے دوران ہی اسامہ بن لادن کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات رہے جسے بعد ازاں مغربی میڈیا نے اپنے رنگ میں پیش کیا۔ مولانا ن ماضی کے جہادی راہنماء ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء اور پورے مشرق وسطٰیٰ کی سیاست و سلامتی اور امریکی پالیسیوں و ترجیحات جیسے امور پر ان کی گہری نظر ہے۔ زیر نظر انٹرویو میں ان ہی موضوعات پر ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
سوال ۔افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کے بعد دنیامیں امن قائم ہوجائے گا؟
مولانافضل الرحمن خلیل ۔ افغانستان میں امریکہ کو عسکری اور سیاسی دونوں اعتبار سے شکست کا سمانا کرنا پڑا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں اسے فوجی شکست ہوئی جب کہ افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات میں روسی حمائت یافتہ امیدوار عبداللہ عبداللہ کی کامیابی یقینی ہے،امریکی امیدوار اشرف غنی ہار چکا ہے۔دراصل دوسرے ممالک میں مداخلت اوران کی پالیسیوں پراثراندازہونا امریکی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے، یہی وجہ ہے کہ اسکی پوری تاریخ مداخلت کے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس طرز عمل سے فوائد بہت حاصل رہے ہیں اسی لئے یہ اس سے باز آنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ویتنام، صومالیہ، افغانستان اور عراق میں اسے پنگے بازی بہت بھاری پڑی مگر چال چلن سے پتہ چلتاہے کہ اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔اس بار امریکی مداخلت کی وجہ سے پورا مشرق وسطیٰ شیعہ سنی کی بنیاد پر دو حصوں میں بٹنے جا رہا ہے۔ ایران کواس صورتحال میں اپنی بحالی اور مشرق وسطیٰ پر بالا دستی کا سبز باغ نظر آرہا ہے سو وہ اس کھیل میں امریکہ کا پاٹنر بننے کا فیصلہ کر چکا ہے، اب یہ طے ہی سمجھئے کہ کم از کم اگلے دس پندرہ سال تک دنیا امریکہ کے پیدا کردہ اس نئے عذاب سے دو چار رہے گی جس کے نتیجہ میں امریکہ یقینا اس گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریگا ۔ امریکہ اس خطے میں ایران کے ساتھ مخلص ہو سکتا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے ساتھ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اس کے اخلاص کے جملہ حقوق اسرائیل کے نام محفوظ ہیںلھذا اس کے کھانے کے دانت یہ ہونگے کہ وہ ایران ، عراق، عمان، لبنان اور شام پر مشتمل شیعہ بلاک کی پشت پناہی کر کے انہیں سعودی عرب ،کویت ، بحرین ، قطر اور یمن سے لڑوانا چاہے گااور جب یہ ممالک لڑ لڑ کر اتنے کمزور ہو جائیں کہ ان میں مزید دم خم نہ رہے تو یہ وہ وقت ہوگا جو گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے موزوں ہوگا۔اس سازش کو اپنے آغاز کے ساتھ ہی صرف ایران ناکام کر سکتا ہے۔ امریکہ ایران کی مدد سے اس کے جنوبی علاقے ملک سے الگ کرکے یمن کے حوالے کرنا چاہتا ہے جبکہ مشرقی ساحل پر ایک الگ ریاست بنانا چاہتا ہے۔ سعودی حکمرانوں کو پہلی بار شدت سے احساس ہوا ہے کہ خطرہ اس کے کتنے نزدیک آچکا ہے ۔ ایک کروڑ سے کم آبادی والی ایک چھوٹی سی ریاست تمام عرب ملکوں پر ایک طاغوتی طاقت کے طورپر مسلط ہے اور اس کے تسلط کی وجہ امریکا کی سرپرستی ہے عربوں کی یہ ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے اسرائیل اور امریکا پر دبا بڑھانے کے لیے تعاون کا مظاہرہ کریں ۔
سوال ۔اس بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کاکیاکردارہوسکتاہے
مولانافضل الرحمن خلیل ۔پاکستان جہاں جغرافیائی حوالے سے اہم ملک ہے اس خطے کی صورتحال میں پاکستان کے بغیرکوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی جہاں تک خطے اورمشرق وسطی کی صورتحال ہے تو پاکستان اس صورتحال میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا کیونکہ سنی ممالک میں دفاعی لحاظ سے سب سے طاقتور ملک ہم ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ اور خطے میں ابھرنے والے اس کے نئے اتحادی ہمارے لئے کوئی ایجنڈہ نہ رکھتے ہوں۔ہمیں ہر حال میں اپنے ان دوست ممالک کے ساتھ صف بند ہونا ہوگا جو اپنے دفاع کے لئے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے خارجہ امور کے بعض ماہرین وقتا فوقتا یہ بات کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو جنوبی ایشیا کی سیاست کے بجائے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اپنا مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے مگر یہ آوازیں ہمیشہ دب جایا کرتی تھیں، آج حالات نے ہمیں خود مشرق وسطیٰ میں دھکیل دیا ہے اور اب مشرقی وسطیٰ کی سیاست کا سارا دارو مدار ہی ہم پر آگیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ایٹمی طاقت اور محنت کش عوام ہی نہیں بلکہ وہ گوادر بندر گاہ بھی ہے۔ خود امریکہ اور ایران کو بھی اس کا پوری طرح ادراک ہے جسکا اندازہ اومان کو گوادر پر دعوے کے لئے ابھارنے کی کوششوں سے ہو رہا ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران چین کی ایک ایٹمی آبدوز نے بحیرہ ہند سے ہوتے ہوئے خلیج عدن تک گشت کیا ہے ،اس گشت کی ٹائمنگ بتاتی ہے کہ یہ مٹر گشت نہ تھا۔ چین مشرق وسطیٰ کی اس نئی صورتحال میں توازن کا کردار ادا کریگاجس کے نتیجے میں جنگ کی صورتحال پیدا نہیں ہو سکے گی اور یہی توازن پاکستان کے لئے معاشی ترقی کے نئے امکانات لئے کھڑا ہے ۔ ہمیں صرد دو ہی کام کرنے ہیں پہلا یہ کہ اپنے دوستوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ ان سول ملٹری تعلقات کو جس قدر جلد ہو سکے معمول پر لے آئیں۔
سوال ۔روس ایک مرتبہ پھرمضبوط ہورہاہے اس نے شام اورکریمیاکے معاملے پرامریکہ کوسیاسی طورپرشکست دی ہے آپ سمجھتے ہیں کہ خطے کی بدلتی صورتحال میں روس کی اہمیت بڑھ جائے گی ؟
مولانافضل الرحمن خلیل ۔اب خطے کے حالات بدل رہے ہیں امریکہ افغانستان سے ذلت آمیرشکست کاداغ لے کررخصت ہورہاہے بھارت اور افغانستان میں الیکشن ہو چکے ہیں۔ امریکہ اورایران کی صلح ہوگئی ہے بنگلہ دیشن میں پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کوپھانسیوں کے پھندے پرلٹکایاجارہاہے میانمارمسلمانوں کی مقتل گاہ بن چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میںبھی تیزی سے حالات تبدیل ہورہے ہیں ایسے حالات میں روس کی طرف سے ایک مرتبہ پھرابھرنانیک شگون ہے اب ایک نئی قسم کی سرد جنگ ابتدائی سطح پر شروع ہے ۔کرایمیا کا جھگڑا امریکہ اور یورپ کیلئے شرمندگی اور پریشانی کی وجہ بن گیا ہے۔ وہ روس کو کرایمیا پر قبضہ کرنے سے روک سکے نہ اب اسے کچھ خاص سزا دینے میں کامیاب رہے ہیں۔
سوال ۔حالیہ افغان انتخابات کوآپ کس نظرسے دیکھتے ہیں
مولانافضل الرحمن خلیل ۔امریکہ بھاگتے بھاگتے کرزئی کی طرح ایک اورکٹھ پتلی کوکابل میںبٹھاناچاہتاہے ان انتخابات کے بعد سب سے اہم مسئلہ امریکہ سے دو طرفہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کا ہے، جس کے خلاف حامد کرزئی نے اپنی مخالفانہ رائے دی ہے۔ حامد کرزئی کی مخالفانہ رائے پر ان کے ناقدین اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسے بھی امریکی کھیل کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تینوں صدارتی امیدوار امریکہ سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کی حمایت کرچکے ہیں۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ جب امریکہ لاکھوں فوجیوں کے ہمراہ جہاد اور مزاحمت کو کچل نہیں سکا تو محض بارہ ہزار فوج کے ذریعے مجاہدینِ افغانستان کو برسراقتدار آنے سے کیسے روک سکتا ہے؟ افغانستان کے عوام نے امریکہ کے خلاف مزاحمت عسکری دائرے میں بھی کی ہے اور سیاسی دائرے میں بھی۔ افغانستان کا ماحول کسی بھی طرح امریکہ اور اس کے وفادار طبقے کے لیے سازگار نہیں ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان کے بدلتے منظر کے اصل فریق وہ مجاہدین ہیں جنہوں نے امریکہ کو فوجی شکست دی ہے۔
سوال ۔سعودی عرب کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالرامداد دی ہے جس پربہت سے لوگو ں کواعتراض ہے کہ یہ امدادشام میں فوجی مداخلت کے لیے دی گئی ہے ۔
مولانافضل الرحمن خلیل ۔بات امدادکی نہیں ہے بلکہ ایک مائنڈسیٹ کی ہے جولوگ آج سعودی عرب سے امدادپرواویلا کررہے ہیں انہوں نے کبھی سوچا کہ امریکہ جب ہم پیسے دے رہاتھا اورہمارے حکمران ان پیسوں کی بدولت اپنی پالیسیاں بدل رہے تھے تواس وقت توکسی کے پیٹ میں مروڑنہیں اٹھی ؟سعودی عرب کی امدادپرشورمچانے والے بتائیں کہ امریکہ ،برطانیہ سے ملنے والی امداداورڈالرزکیسے مقدس ہوگئے ؟سعودی عرب ہمار ابرداراسلامی ملک ہے بلکہ حرمین کی وجہ سے یہ تمام مسلمانوں کی محبت کامرکزہے یہ سعودی عرب ہی ہے کہ جس نے ہمیشہ مشکل ترین حالات میں پاکستان کاساتھ دیا چاہے زلزلہ ہویاسیلاب ،کوئی بھی آفت ہوسعودی عرب ہمیشہ پیش پیش رہاہے سعودی عرب سے ہماراتعلق ایک نظریاتی تعلق ہے اس سے ملنے والے امداد پراعتراض کرنے والے اندھے ہیں جوامریکی ڈالروں کوعوض اس امدادکوحرام قراردینے کے فتوے دے رے ہیں جہاں تک شام میں فوج بھیجنے کاتعلق ہے تواس حوالے سے حکومت پاکستان نے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے اس کے باوجود کچھ لوگوں کی طرف سے بے پرکی اڑانا نہایت غلط ہے جہاں تک اس بات کاتعلق ہے شام بھی ایک اسلامی ملک ہے وہاں اگرمسلمانوں پرکوئی ظلم ہورہاہے تواس کے اثرات مسلم امہ پربھی پڑرہے ہیں جن لوگوں کو سعودی عرب کی امدادپراعتراض ہے انہوں نے کبھی شام میں ایران اورحزب اللہ کی مداخلت پربھی بات کی ہے؟
سوال ۔مقبوضہ کشمیرمیں جاری تحریک آزادی آخرکیوں سردپڑگئی ہے ؟
مولانافضل الرحمن خلیل ۔مقبوضہ کشمیرکی تحریک کبھی سردہوہی نہیں سکتی کیوں کہ اس تحریک کے پیچھے ایک لاکھ شہداء کامقدس خون ہے یہ اسی خون کی برکت ہے کہ کشمیری عوام نے بھارتی تشدداورزورذبردستی کے باوجو د الیکشن ڈرامے کابائیکاٹ کیا بھارتی حکومت نے الیکشن ڈرامہ کو کامیاب بنانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند رہنماوں اور عام نوجوانوں کی گرفتاریاں کیں جس سے مقبوضہ وادی کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیںچوبیس اپریل کو جو الیکشن ہوئے ہیں ان میں ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا ۔ آزادی پسند قیادت اور عام نوجوانوں کیخلاف کریک ڈاون اس بات کا غمازی ہے کہ وادی کے حالات بھارتی حکومت کے ہاتھ میںنہیں رہے اب کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینا پڑیگا جس کا وعدہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں کیا ہوا ہے ۔مجاہدین کشمیرنہ تھکے ہیں اورنہ ہی انہوں نے اپنے ہتھیاررکھے ہیں بھارتی حکومت نوشتہ دیوارپڑھ لے۔