پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اگر کرپشن اور بے ضابطگیوں کے الزامات سے محفوظ رہتے تو تاریخ ان کو اچھے لفظوں میں یادرکھتی۔ وہ باقاعدگی کیساتھ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور میڈیا کے ذریعے قوم کے ساتھ رابطے میں رہتے۔ وہ بلاشک متحرک اور فعال وزیراعظم تھے۔ میاں نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو پانچ سال خاموش رہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور عوام کو کوئی اہمیت نہ دی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جماعت 2013ء میں سندھ تک محدود ہوکررہ گئی۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے اور میڈیا کے ذریعے عوام کیساتھ رابطہ رکھتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار کا ایک سال پورا کرلیا ہے ان کا آئینی فرض تھا کہ وہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بارے میں قوم سے خطاب کرکے عوام کو اعتماد میں لیتے۔ میاں صاحب میں وہ جوش، تڑپ اور سرگرمی نظر نہیں آتی جس کی عوام کو توقع تھی۔ وزیراعظم کے سردمہری پر رویے کی بناء پر عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کپتان کے بغیر چل رہا ہے۔ کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردی کے المناک سانحہ نے پوری قوم کو سکتے میں مبتلا رکھا۔ اس دہشت گردی میں اسلامک موومنٹ ازبکستان کے دہشت گرد ملوث تھے جن کی تصاویر بھی جاری کردی گئی ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی اس قدر کمزور ہے کہ غیر ملکی دہشت گرد بھی پاکستان کے حساس مقامات کو نشانہ بناسکتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کا فرض تھا کہ وہ کراچی کی دہشت گردی کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیتے اور قوم کیساتھ ساتھ فوج کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ وزیراعظم نے فوٹو سیشن کیلئے سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس کے بعد خود پریس بریفنگ کرنے کی بجائے دوسطری بیان جاری کرادیا۔ ’’اجلاس میں اندرونی، علاقائی سکیورٹی بشمول کراچی ، بلوچستان اور فاٹا کے معاملات زیربحث آئے‘‘۔ وزیراعظم کا انداز سیاست جمہوریت نہیں ملوکیت پر مبنی ہے۔ منتخب لیڈر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب دے اور حکومت کے بارے میں عوام کے شکوک و شبہات دور کرے۔ موجودہ حکومت نے ستمبر 2013ء میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ نو ماہ ہوگئے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کی سولی پر لٹکا ہے۔ طالبان نے مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی جاری رکھی۔ وزیراعظم نے نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی عوام کو مذاکرات کی پیش رفت کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم کی گومگو اور تذبذب پر مبنی پالیسی نے عوام اور فوج دونوں کو مایوس کیا ہے جبکہ اس رویے سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ عسکری حلقے حکومت کے تاخیرحربوں اور غیر فعال رویے سے گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ تاثر پھیلتا جارہا ہے کہ موجودہ قیادت چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہل ہی نہیں ہے۔جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں ہزاروں انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے مزید خون بہانے کی دھمکی دی ہے۔ حکومت کی ناکامی ، نااہلی اور بے حسی کی بناء پر اب دوسرے ملکوں کے دہشت گردوں نے بھی ریاست کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جبکہ وزیراعظم نے مذاکرات کی رسی سے فوج کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ حکومت ایک سال کے بعد بھی نیشنل سکیورٹی پالیسی منظر عام پر نہیں لاسکی۔ نیکٹا ابھی تک غیر فعال ہے کیا اس کارکردگی کیساتھ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی جاسکتی ہے۔ معصوم اور بے گناہ شہریوں اور فوجیوں کا خون ہر روزبہہ رہا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں عوام وزیراعظم سے سوال کرتے ہیں۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن
جو تیرے عارض بے رنگ کا گلنارکریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلزار کریں
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ طالبان کے سلسلے میں حکومت اور فوج ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ یہ تاثر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے مؤقف کو کمزور کررہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو ایک دلیر قائد کی طرح پردے سے باہر آنا ہوگا اور شیر کی طرح جنگ کی قیادت سنبھالنی پڑیگی۔ موجودہ کارکردگی کیساتھ وہ اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکیں گے۔ ایک سینئر سکیورٹی آفیسر نے کہا ہے ’’یہ تاریخ کا سنہری موقع ہے جب دہشت گرد تقسیم، کمزور اور منتشر ہیں۔ عوام کی حمایت افواج پاکستان کیساتھ ہے۔ بڑے آپریشن کیلئے حالات انتہائی سازگار ہیں اگر ہمیں ردعمل کا خوف ہے تو پھر ہمارے پاس دو آپشن ہیں آہستہ آہستہ خون بہتا رہے اور ہم مرتے رہیں یا کھڑے ہوجائیں اور کام مکمل کریں‘‘۔ وزیراعظم صاحب جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہومعاشی انقلاب کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ فوج اپنے طور پر جوابی حکمت عملی پر مبنی پالیسی کیمطابق ٹارگٹ آپریشن کررہی ہے مگر اسے حکومت کی مکمل سرپرستی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اپنی ذمے داری قبول کرنے کی بجائے خفیہ ایجنسی سے سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔کیا حکومت کو کسی بڑے سانحہ کا انتظار ہے۔ وزیراعظم قوم سے خطاب کریں اور دہشت گردوں کیخلاف مکمل جنگ کا اعلان کرکے جنگ کی قیادت سنبھالیں۔ اگر وہ بوجوہ قیادت سے قاصر ہیں تو اپنی جماعت سے متبادل قیادت سامنے لائیں۔ پاکستان غفلت اور بے حسی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ خوف سے نہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ میاں نواز شریف کی کمزور خارجہ پالیسی اور کنفیوژ سکیورٹی پالیسی کی بناء پر امریکہ نے چھ ماہ بعد شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کرکے 16 دہشت گرد ہلاک کردئیے ہیں۔ عالمی قوتیں اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ سال قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا۔ پاکستان کو دہشت گردی جیسے سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بقا ہی خطرے میں پڑچکی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے صنعتی ترقی کا پہیہ منجمد کردیا ہے۔ نندی پور اور نیلم جہلم منصوبے میں مجرمانہ غفلت اور تاخیر کرکے کرپشن کی گئی۔ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے اور واپڈا کے ادارے بیٹھ گئے ہیں جن کی وجہ سے پانچ سو ارب روپے سالانہ کا خسارہ ہورہا ہے۔1990ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 3000 بلین روپے تھا جو 2013ء میں 14500 بلین روپے ہوچکا ہے۔ وزیراعظم صاحب قوم کو خطاب کرکے بتائیں کہ ایک سال کے بعد دہشت گردی کو کس حد تک کنٹرول کیا گیا ہے، قرضوں کا حجم آج کیا ہے، ریاستی اداروں کی حالت کیسی ہے، کرپشن کے کتنے مقدمات درج کیے گئے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوں ختم نہیں ہوسکی۔
یوں تو ہر شخص ہے اندیشۂ رہزن کا اسیر
کارواں نیتِ رہبر سے بھی غافل نہ رہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024