اس وقت پوری دنیا میں تقریباً دو سو سے زیادہ ممالک ہیں جہاں ہر ملک کا اپنا پنا حکومتی یا ریاستی نظام رائج ہے۔ تاریخی، تہذیبی اور معاشرتی اعتبار سے آج سے یہ بات طے شدہ اور متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ ہر حکومت کی تین بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔m اپنے شہریوں کا بیرونی اور اندرونی دشمنوں اور شورشوں کے مقابلے میں مکمل دفاع اور تحفظ ۔m تمام شہریوں کے لیے صحت اور علاج معالجے کی مکمل اور بہترین سہولیات بلاامتیاز مفت پہنچانا۔m تمام شہریوں کو ایک مخصوص لیول (ہائی سکول یا ہائر سیکنڈری لیول) تک یکساں اور بہترین تعلیم مفت دینا۔ان تینوں بنیادی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرنے کے لیے درکار مالی وسائل کو پوراکرنے کی غرض سے تمام حکومتیں ایک مخصوص اور متعین طریقے سے ٹیکس نافذ کرتی ہیں۔ جس کو تمام شہری بہت خوشی اور رضامندی سے ادا کرتے ہیںکیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے انکی خون پسینے کی کمائی ہوئی دولت اور ٹیکس کو حکومت وقت واپس انہی (عوام)کی بنیادی ضروریات کے اوپر خرچ کر رہی ہے۔اس وقت دنیا میں ان ممالک کی فہرست بہت لمبی ہے جہاں شہریوں پر لاگو ٹیکسوں کی شرح پاکستان کی نسبت کافی زیادہ ہے لیکن پھر بھی ان ممالک کی غالب عوامی اکثریت بخوشی تمام ٹیکسز ادا کرتی ہیں۔کیونکہ عوام کو بھرپور اور مکمل یقین ہے کہ ان کی متعلقہ حکومتیں اپنی عوام کو اوپر دی گئی تینوں بنیادی سہولتوں کی مسلسل اور بھرپور فراہمی کیساتھ 100فیصد مخلص ہیں۔جس کا منہ بولتا ثبوت ان ممالک میں عوام کا بلند معیار زندگی ہے۔ اب ہم مختصراً جائزہ لیتے ہیں ۔ درجہ بالا تینوں حکومتی ذمہ داریوںکی بطریق احسن ادائیگی میں حکومت پاکستان (صوبائی یا وفاقی)کس قدر کامیاب و کامران ہیں۔اور آیا کہ عوام کو مزید ٹیکس ادا کرنے چاہئیںیا حکومت پاکستان عوامی ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی رقوم سے انصاف کر پا رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف 10لاکھ ہے اور بیس کروڑ کی آبادی میں سے یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ دوسرے ممالک خصوصاً یورپ ،امریکہ اور نارتھ امریکہ میں ڈائریکٹ ٹیکس دینے والوں کی تعداد80 فیصد سے زائد ہوتی ہے۔باقی 20فیصد کی عمریں چونکہ اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیںلیکن وہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس کے زمرے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ اور امریکہ سمیت ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سوشل سکیورٹی ،پنشن، میڈیکل سہولیات ،بے روزگاری الاﺅنس، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کا ایک ماڈل نظام رائج ہے۔ مثال کے طور پر سوئٹزرلینڈ میں ایک آدمی کی اگر جاب چھوٹ بھی جائے تو اسے جب تک وہ دوسری جاب تلاش نہ کر لے اس کو پہلی جاب کا 80 فیصد ماہوار ملتا رہے گا۔اسی طرح پنشن کی مد میں 65 سال سے اوپر مرد اور عورتوں کو ایک فائیوسٹار ہوٹلوں جیسی رہائش اور اکاموڈیشن اور ماہوار وظیفہ بھی دیا جاتا ہے اور طبی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ ہرشخص کی میڈیکل انشورنس ہوتی ہے جس پر انہیں ایک کریڈٹ کارڈ کی شکل میں میڈیکل کارڈ ایشو کر دیا جاتا ہے جس پر وہ پوری دنیا میں اپنا علاج یا بوقت ضرورت استعمال کر سکتے ہیں۔اسی طرح مختلف جرائم میں سزا یافتہ افراد کو جب جیل بھیجا جاتا ہے تو کچھ ہفتے کے بعد شادی شدہ مجرموں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ ویک اینڈ اپنی فیملی کے ساتھ گزار سکیں۔میں جب یورپ اور امریکہ کی ان معاشرتی خوبیوں کا جائزہ لیتا ہوں تو میری سمجھ میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہاں پر رائج ٹیکس کا نظام اس سارے سسٹم کی بنیاد ی وجہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کرپٹ سیاستدان بیوروکریٹ، سرمایہ دار جاگیردار جرنیل اور عدلیہ کے لوگ پاکستان میں اس معاشی معاشرتی ناہمواری کے ذمہ دارہیں۔ کتنے کارخانہ دار اور سرمایہ دار ہیں جو خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنا ٹیکس بخوشی ادا کرتے ہیں؟ کتنے جاگیردار ہیں جو ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر گذشتہ دورِ حکومت میں بجلی کی کمی کے باعث حکومت نے فیصلہ کیا کہ دکانیں رات آٹھ بجے بند کر دی جائیں(یورپ ،امریکہ اور پوری دنیا میں صبح 8بجے سے شام 8بجے تک کاروبار کے اوقات ہیں)مگر ہال روڈ، مال روڈ ، عابد مارکیٹ، بیڈن روڈ اور پاکستان بھر کے دیگر شہروں کے تاجروں نے نہ صرف اس بات کی مخالفت شروع کر دی جبکہ یہی تاجر لوگ پاکستان بھر میں کوئی بھی ایسا نظام اور سسٹم اپنانے سے انکاری ہیں جس میں کہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ انکی روزانہ کی آمدن کیا ہے ؟ پاکستان میں کتنے غریب ریڑھی بان اور ٹھیلے لگانے والے ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ حالانکہ ایک ٹھیلے والا بھی روزانہ ہزار پندرہ سو کی دیہاڑی لگا کر جاتا ہے؟ اسی طرح تقریباً ہر بڑا فیکٹری مالک بجلی یا گیس کی چوری میں ملوث پایا جاتا ہے۔یاد رکھیے اگر ہم نے اپنی کمائی پر ٹیکس اد انہیں کرنا ، اگر ہم نے اپنی ہی حکومت سے اپنی آمدن کو چھپانا ہے تو پھر ہمیں ایک فلاحی ریاست سے جو وابستہ خواہشات ہوتی ہیں وہ مانگتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہ کریں مگر ہمیں سہولتیں یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں ملیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اسلام نے ہمیں ٹیکس (زکوٰة)کے مثاویانہ نظام سے متعارف کروایا ہے مگر موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہم وہی زکوٰةسرکاری خزانے میں انکم ٹیکس کی صورت جمع کروائیںتو پھر پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے خون نچوڑنے والے اداروں کا محتاج نہیں ہونا پڑیگا۔اگر ہمیں واقع ہی کشکول توڑنا ہے اور اپنی انا کو مجروح ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں ٹیکس کا کوئی عالمی اور کامیاب نظام اپنانا ہوگا۔وگرنہ بھیک اور قرضے کے پیسوں پرآپ کب تک عیاشیاں کر سکتے ہیں؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024