جدید ٹیکنالوجی کے دور میں توانائی کے بغیر ترقی کا حصول نا ممکن ہے۔ لیکن دوسروں کا سرخ چہرہ دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ مارنے سے منہ لال نہیں ہوتا۔ آج ترقی یافتہ دنیا میں Renewable Energy کے حصول کےلئے انتہائی کاوشیں ہو رہی ہیں۔جسے دیکھ کر پاکستانی بیوروکریسی بھی چلا رہی ہے کہ مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے Renewable Energy کا حصول بہت ضروری ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو اتنا نظر نہیں آتا کہ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان کے زمینی حقائق میں بعد المشرقین ہے۔ ترقی کے یقینی حصول کیلئے صنعتی اداروں کی پروڈکٹس کی پیداواری لاگت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ کم پیداواری لاگت کےلئے توانائی کے نرخ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ توانائی کے اس سیکٹر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جس کی فی یونٹ پیداواری لاگت سب سے کم ہو۔ امریکہ میں صنعتی ترقی کا دور دو سو سال پہلے سے شروع ہے۔ پاکستان سے رقبہ میں 11 گنا بڑے امریکہ نے توانائی کے حصول کےلئے اپنی معدنیات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بیسویں صدی میں سر فیراڈے کی تحقیق کے بعد Electro Megnetism کے ذریعے بجلی کا حصول ممکن ہوا تو صنعتی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ بجلی کی پیداوار کیلئے سب سے زیادہ ارزاں اور موزوں ہائیڈل پاور کو سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف سستی ترین بجلی حاصل ہوتی ہے بلکہ پانی کی یکساں اور مستقل فراہمی کو ممکن بنا کر غذائی خود کفالت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ امریکہ میں بہنے والے واحد دریا مسوری مسس سپی کے ذریعے تقریباً 97 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی گئی۔ لیکن چونکہ امریکہ کا صنعتی اور کاروباری حجم بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ 11 لاکھ میگا واٹ کے قریب بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اسکی تقریباً نصف 5 لاکھ میگا واٹ سے زائد بجلی تیل اور گیس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ کوئلہ کے ذریعے بھی ساڑھے تین لاکھ میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ نیوکلر پاور ہاو¿سز بھی ایک لاکھ دس ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی فراہم کر رہے ہیں جبکہ Renewable Energy کے ذریعے صرف 27 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ صنعتوں کا پہیہ رواں رکھنے کےلئے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جس تیزی سے وسائل استعمال ہو رہے ہیں۔ اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 2025ءیا زیادہ سے زیادہ 2030ءتک زیر زمین تیل گیس اور کوئلہ کے ذخائر ختم ہو جائینگے جبکہ امریکہ میں ساڑھے آٹھ لاکھ میگا واٹ سے زائد بجلی ان ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں امریکی تھنک ٹینک ابھی سے توانائی کے نئے ذرائع حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ چنانچہ سولر انرجی اور ونڈ پاور کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اسکے ساتھ ہی بائیو گیس پر بھی توجہ دی جا رہی ہے تا کہ توانائی کا حصول کسی بھی ذرائع سے ممکن ہو سکے۔ اسکے مقابلہ میں پاکستان کے زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔شدید گرمیوں میں ہماری ڈیمانڈ صرف 19 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ بہتے پانیوں پر ایک لاکھ میگا واٹ سے زائد سستی ترین بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی پیداواری لاگت پہلے 5 سال ڈھائی روپے اور بعد میں صرف ایک روپے یونٹ آئیگی۔ اگر صرف بجلی کے پیداواری یونٹ لگانے کی بات ہو تو اس سال کے آخر تک ہماری پیداواری صلاحیت 25 ہزار میگا واٹ سے زائد ہو جائیگی جس میں سے 3200میگا واٹ کی ونڈ پاور بھی شامل ہوگی لیکن اس کا ریٹ آج تک ظاہر نہیں کیا گیا البتہ خبروں کیمطابق تقریباً 12 روپے فی یونٹ ہوگی۔ شمسی توانائی یا سولر انرجی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کےلئے بہت زیادہ تحرک کیا جا رہا ہے بلکہ کچھ اعلیٰ سطح کے کارندے سولر انرجی کے حصول کیلئے دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک نے سب سے پہلے سولر انرجی کے حصول کےلئے خام سلیکون کو صاف کرکے سولر انرجی کےلئے سلیکون سیل بنائے۔ یہ کوئی پیچیدہ ٹیکنالوجی نہیں لیکن پاکستانی نوکر شاہی کے کارندے باہر سے سولر سیل منگوا کر صرف اپنا کمیشن کھرا کرنے کے چکر میں ہیں۔ اگر پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ انجینئرنگ اور دیگر یونیورسٹیوں کو سولر ٹیکنالوجی کا ٹاسک دیا جائے۔ ان یونیورسٹیز کے ہزاروں طالب علم ورکشاپوں میں سولر سیل تیار کریں۔ اور لوکل انڈسٹری کو بھی ٹیکنالوجی مہیا کی جائے تو درآمد شدہ سولر سیل سے 4/5 گنا کم قیمت پر بہترین سولر سیل بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر سولر ، ونڈ اور دیگر Renewable Energy کیلئے یونیورسٹیز کو تھوڑے سے فنڈز مہیا کئے جائیں تو اس کے زبردست نتائج نکل سکتے ہیں۔ پھر ہم اپنے وسائل سے ونڈ مل، سولر انرجی اور بائیو گیس میں ہر ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ونڈ مل کےلئے کھمبے اور پنکھے تک درآمد کئے جائیں تو ملکی صنعت کو کس طرح فروغ ملے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ توانائی کے حصول کےلئے احمقانہ فیصلوں سے گریز کیا جائے۔ Renewable Energy کے حصول کےلئے ٹیکنالوجی کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ جس کیلئے ہماری یونیورسٹیاں بہترین راہبری کر سکتی ہیںجبکہ سستی ترین ہائیڈل پاور کو قابل استعمال بنانے کےلئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ایک لاکھ میگا واٹ ہائیڈل پاور سے ہم نہ صرف ملک کے تمام مسائل باسانی حل کر سکتے ہیں بلکہ ریلوے ٹرینیں بھی بجلی کے ذریعے چلائی جا سکتی ہیں۔ درآمدی تیل پر انحصار ختم ہوگا۔ تجارتی خسارہ منافع میں تبدیل ہو جائیگا۔ تب ہی حقیقی ترقی کا سفر شروع ہوگا۔ ورنہ ڈنگ ٹپاو¿ فیصلوں اور دوسروں کے چہروں کی سرخی دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار کر لال کرنے سے رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38