تحریک طالبان کی کارروائیوں کے حوالے سے پاکستان کا ہمیشہ سے بہت واضح اور سخت موقف رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ٹی ٹی پی گروپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس گروپ کے افراد سرحد پار سے پاکستان میں امن و امان خراب کرنے کے حوالے سے متحرک ہیں۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر افغانستان حکومت سے اس حوالے سے بات چیت کی ہے۔ پاکستان خطے میں امن قائم کرنے کے حوالے ہر وقت اقدامات کرتا رہتا ہے، پاکستان نے ناصرف خطے بلکہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں قیمتی جانوں اور کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں کے بارے پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے چند ہفتے قبل بہت واضح انداز میں یہ بیان دیا تھا کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف وہاں جا کر بھی کارروائیاں کریں گے۔ وزیر دفاع کے مطابق گزشتہ دہائی میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کے دور میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی واپسی کے بعد دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ افغان حکومت سے تعاون کی امید تھی مگر طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔ طالبان سے بات چیت کے بعد چار سے پانچ ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام رہا اور افغانستان سے کارروائیاں کرنے والے طالبان کو پاکستان میں پناہ مل گئی۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کو تحریک طالبان پاکستان نے تسلیم کیا ہے اور پاکستان کے دفاعی اداروں کی طرف سے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنوں میں ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں سے اکثریت کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے۔ پاکستان کے پاس اس حوالے ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے بار بار افغان حکومت سے بات چیت کرتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان نے افغان حکومت پر بار بار الزام لگایا ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر پاکستانی طالبان کو محفوظ ٹھکانے مہیا کر رکھے ہیں اور ٹی ٹی پی کے شدت پسند پاکستان میں مسلح حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یعنی افغان سرزمین پاکستان کا امن خراب کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکومت کے ساتھ فائر بندی معاہدہ نومبر 2022ء میں فائر بندی کا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوئے یہی وجہ ہے کہ اب ان دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے نئے آپریشن’عزمِ استحکام‘ کی ضرورت پیش آئی ہے اور اس آپریشن میں زیادہ توجہ ان جنگجوؤں کو روکنے پر دی جائے گی، جو پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
افغان حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کے مطابق افغانستان کا سب سے بڑا دہشتگرد گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہے۔
اقوام متحدی مانیٹرنگ گروپ کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، ٹی ٹی پی کو افغان طالبان اور القاعدہ کے دھڑوں کی آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں، افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خطرے کو ختم کرنے میں ناکام ہے یا اس کا ایسا ارادہ نہیں ہے۔ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو دہشتگرد گروپ تصور نہیں کرتے، ان کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں، ٹی ٹی پی والے افغانستان سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں، ٹی ٹی پی والے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد بڑھائی ہے، ٹی ٹی پی کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ القاعدہ کیمپوں میں تربیت دی جارہی ہے، القاعدہ کی بڑھتی حمایت سے ٹی ٹی پی خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ مجھے اپنے سیاست دانوں کے سامنے پیش کرنی ہے۔ یعنی آپ اپنی سیاست میں اس حد تک بے رحم ہو سکتے ہیں کہ ملک کا امن تباہ کرنے کی کوششیں کرنے والوں اور ہمارے محافظوں کو نشانہ بنانے والوں کی حمایت کرنا پڑ گئی ہے۔ یہ حالات، واقعات اور سیاست دانوں کے فیصلے افسوس ناک ہیں۔ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرنے والے کیا اقوام متحدہ کی رپورٹ کو بھی نظر انداز کریں گے۔ افغان حکومت کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اگر ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادیوں کو نہ روکا گیا تو یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ پاکستان اس مرتبہ بھی دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور شرپسندوں کے گروہ کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے۔ شہیدوں کا خون اور قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ملک کو پرامن رکھنے کے لیے ہر قسم کے اندرونی و بیرونی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے خالصتا ملک کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں گے۔ ریاست کا فیصلہ ہے کہ دہشتگردوں کو کچلنا ہے تو پھر سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ملکی مفاد میں فیصلہ کرے۔ گذشتہ روز بھی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تمام سیاسی جماعتیں دہشتگردی کے خلاف متحد ہوں۔ بدقسمتی ہے کہ دہشتگردوں کے گروہ متحد ہو کر پاکستان میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت گومگو کا شکار ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے مخالف ہیں۔ یاد رکھیں امن ہو گا تو سیاست ہو گی امن نہ رہا تو کچھ نہیں رہے گا۔
خبر یہ بھی ہے کہ بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی نے حریت پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی درخواست کر دی ہے۔ یاسین ملک دو ہزار انیس سے زیر حراست ہیں جب کہ مئی دو ہزار بائیس سے وہ تہاڑ جیل میں بھارتی حکومت کے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ نئی دلی ہائیکورٹ کے جج امیت شرما نے خود کو یاسین ملک کے مقدمے سے الگ کر لیا ہے۔یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی درخواست کی سماعت آئندہ ماہ نو تاریخ کو ہو گی۔ اس سے پہلے یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا تھا کہ ان کے شوہر کو تہاڑ جیل میں تھرڈ ڈگری تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کاش اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل پر بھی حرکت میں آئے کاش لیکن فی الوقت ایسا کچھ ہو ممکن نہیں۔
آخر میں اختر ملک کا کلام
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں
بات نیت کی صرف ہے ورنہ
وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں
بھول جاتے ہیں مت برا کہنا
لوگ پتلے خطا کے ہوتے ہیں
وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے
ان سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں
وہ ہمارا ہے اس طرح شاید
جیسے بندے خدا کے ہوتے ہیں
بخش دینا بھی ٹھیک ہے لیکن
کچھ سلیقے عطا کے ہوتے ہیں
کچھ کو دنیا بکھیر دیتی ہے
کچھ پریشاں سدا کے ہوتے ہیں
وہ جو ہستی میں ڈوب جاتے ہیں
ان کے چرچے بلا کے ہوتے ہیں
اس کی فطرت ہی ایسی ہے اختر