کووڈ 19 کے سماجی اثرات

عام حالات میں کم از کم پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوتا لیکن کووڈ 19کی لپیٹ میں آنے کے بعد پاکستان میں زندگی اچانک سادہ سی ہو گئی ہے۔ لوگوں نے بلا ضرورت ایک دوسرے سے ملنا اور گھروں سے باہر جانا آنا محدود کر دیا ہے۔ متوسط طبقے کے گھرانے شادیوں کی تقریبات کے اخراجات تلے دبتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اخراجات اور نت نئی رسومات کا ایسا طویل سلسلہ تھا جس میں صرف خرچہ ہی خرچہ تھا۔ اسی خرچے پربہت بڑا کاروبار چل رہا تھا۔ جن لوگوں کو شادی کرنے سے دلچسپی تھی انہوں نے یہ فریضہ سادگی سے ادا کر دیا لیکن جو لوگ اسے اپنے سماجی رتبے کی برتری شان و شوکت کرتے رہے ہیںوہ اب بھی وبا کے اختتام اورپرتکلف زندگی کے دوبارہ آغاز کا انتظار میں بیٹھے ہیں۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ محرم کے آتے آتے کووڈ 19کی شدت میں اتنی کمی ہو جائے گی کہ عاشورے کے جلوس نکل سکیں۔ جب لاک ڈائون کے دوران سندھ حکومت کی سرپرستی میں یوم علی کے جلوس نکلوائے تو اب توحکومت وبا کی شدت میں کمی آ نے کا اعلان کر رہی ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جب لاک ڈائون شروع ہوا تو فضا میں کافی خوف و ہراس تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو بیماری کے اثرات کا اندازہ نہیں تھا ۔کچھ لوگ کاروبار کی بندش اور پولیس کی ناکہ بندیوں اور پکڑ دھکڑسے پریشان اور ناراض تھے۔ اکثر پاکستانیوں کے خیال تھا کہ لاک ڈائون محض بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے کچھ سہولتیں حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔اکثر لوگوں کو وبا کی ہلاکت خیزی پر یقین نہیں ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے ایک بڑی سماجی تبدیلی یہ آئی ہے کہ بازار سر شام ہی بند ہو نے لگے ہیں ورنہ حکومت تو تاجروں اور دکانداروں کے سامنے ہار مان چکی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خریدار ہی غائب ہو چکے ہیں، دوسرے یہ کہ پولیس کے جرمانوں کا خوف ہے۔ جو بازار جمعہ کے دن بند رکھے جاتے تھے وہ اب جمعہ کے روز کھلنے لگے ہیں۔بازاروں میں قائم تجاوزات کی وجہ سے بلاوجہ رش بڑھ گیا ہے، اگر انسداد تجاوزات کا محکمہ کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال نہیں
کر گیا ہے تو وہ بازاروں میں بلاوجہ رش ختم کرنے کے لیے دکانداروں کو مقررہ تاریخ تک تجاوزات ختم کرنے بصورت دیگر ماہانہ جرمانہ اور تجاوزات ختم کرنے پر ہونے والے اخراجات بھرنے کے نوٹس بھیج کرکمرشل علاقوں کی بد نظمی ختم کر سکتا ہے۔ لاک ڈائون کھلنے کے بعد جب سے معاشی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں تب سے کراچی کے رہائشی علاقوں میں کچرے کے انبار دوبارہ بلند ہونے لگے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے وبائی صورت میں ابھرنے کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناظم آباد جیسے پرانے رہائشی علاقوں کے گھروں میں پانی کی لائنوں میں گٹر کا گندا اور بدبو دارپانی فراہم کرنے کی شکایات پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاک ڈائون کے ابتدائی ہفتوں کے دوران گھروںمیں کسی ہوٹل کے سوئمنگ پول جیسا شفاف پانی آنے لگا تھا لیکن جب سے ٹینکر مافیا دوبارہ سرگرم ہوا ہے پانی کی لائنوں میں دوبارہ گٹر کا بدبودار پانی شامل ہونے لگا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ زندگی یہی چیک کرتے ہوئے گزر جائے گی کہ کب صاف پانی آ رہا ہے اور گندہ …… حقیقت یہ ہے کہ کراچی واٹر بورڈ والوں کو نہ توپانی اور سیوریج کی بوسیدہ لائنیں تبدیل کرنے سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ پوری لائن کھودے بغیرہی زمین کو اسکین کرکے معلوم کر لیں کہ لائن کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ صحت عامہ کے فنڈز پہلے ہی کووڈ 19کے علاج معالجے کی طرف منتقل ہو چکے ہیں،جس کی وجہ سے ملک میںصحت عامہ کے دوسرے شعبے کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں جس کے اثرات آئندہ چند مہینوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے بچوں کو متعدی بیماریوں کی ویکسین لگانے کا سلسلہ متاثر ہوا ہے۔ پولیو ڈراپ پلانے والی ٹیموں کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ وبا کی وجہ سے عام لوگوں میں ہسپتال جانے سے گریزکے رجحان میںاضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو ٹیکے لگوانے کا عمل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔اس صورتحال پر ڈبلیو ایچ او نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال تک کی عمر کے بچے شدید خطرے میں ہیں۔ عالمی لاک ڈائون کی وجہ سے ایئر لائنز کاآپریشن متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میںویکسینز کی ترسیل میںخلل پڑا ہے اور لاکھوں خوراکیں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ پاکستان کی ایک تہائی آبادی 14 سال تک کے بچوں پر مشتمل ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کی نہ تو کسی کو فکر ہے اور آبادی کے اس حصے کی کوئی آواز ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے بچوں میں خوراک کی کمی کی وجہ سے ذہنی نشو و نما کمزور رہ جانے کی بات کی تھی تو سیاسی اشرافیہ کے لوگوں نے اس بات کو مذاق میں اڑا دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کے اس مستقبل کی بات کر رہے تھے جو ہماری سماجی اور معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔تاہم اسمبلیوں میں پہنچنے والے نمائندگان کو عام طور پر ایسے عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کووڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں تنگدستی کی جو لہر اٹھ رہی ہے اس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑنے والا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور یونیسیف قیاس کر رہے ہیں کہ کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں بچے روٹی کمانے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ 2017ء کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں 152 ملین بچے محنت مزدوری کر رہے تھے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ وبا کے نتیجے میں آنے والے بے روزگاری مہنگائی اور تنگدستی کی وجہ سے بہت سے غریب بچے اسکول واپس نہیں آ سکیں گے۔ یونیسیف کے اندازے کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ایسا ملک ہے جہاں تقریباً 44 فیصد بچوں پر تعلیم کے دروازے نہیں کھل سکے ہیں ہیں۔ گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق 5 سے 16 سال تک کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکولوں سے باہر تھے۔ وبا کے بعد اسکول چھوڑ کر کسی دکان، ہوٹل یا کارخانے میں بٹھائے جانے والے بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ آئین پاکستان کی شق 25 A اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ 5 سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی، لیکن پاکستان کا تعلیمی نظام تین طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے لیکن ملک میں ایک چوتھا طبقہ بھی موجود ہے جواپنے بچوں کو کسی بھی مدرسے یا سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلوانے کے بجائے کاریگر بنانے پر یقین رکھتا ہے تاکہ گھر کی دال روٹی بھی چلتی رہے اور بچے کا کوئی چھوٹا موٹا کیرئیر بھی بن جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے جو فوری طور پر کوئی ہنر سیکھ کر اپنے غریب گھرانے کے لیے روٹی کمانا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے قوانین اور عالمی کنونشن چائلڈ لیبر کی ممانعت کرتے ہیں لیکن پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے باعث بچوں کو مشقت سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ بہتر تو یہی ہے کہ بچوں کو والدین کی نگرانی میں ہلکا کام کرنے یا گھریلو صنعتوں میں والدین کا ہاتھ بٹانے کے عمل کو قبول کر لیا جائے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جاپان کی صنعتی ترقی کے پیچھے چھوٹی چھوٹی ورکشاپس اور کارخانے ہیں جن میں تین چار افراد سے لے کر 13 افراد تک کام کرتے ہیں۔پاکستان میں آن لائن تعلیم کا نظام کسی نہ کسی صورت میں چل ہی پڑا ہے اگر ہنر مندی والی غیر روایتی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جائے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ دوسری جانب قیاس کیا جا رہا ہے کہ طویل چھٹیوں کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی استعداد میں قدرتی کمی آئی ہے، اکثر طلبہ رات بھر جاگتے رہتے ہیں اور دن میں دیر تک سوتے رہے ہیں۔چھٹیوں کے باوجود اسکولوں کو اسکول اور وین کی ماہانہ فیسیں وصول کرنے کی زیادہ فکر ہے، اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ والدین کورس کی کتابیں ابھی نہ بھی خریدیں تو اسکول کے مونوگرام والی کاپیاں ضرور خریدلیں لیکن جب بہت سے والدین کا ہاتھ سکڑ گیا ہو تو وہ پڑھائی کے بغیر اسکول اور وین کی فیس کیوں دیں گے۔قیاس کیا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں تقریباً 4 ارب افراد ایسے ہیں جنہیں کوئی سوشل سیکیورٹی اور صحت عامہ کی انشورنس وغیرہ جیسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے جبکہ پاکستان میں کسی کو بھی بے روزگاری الائونس نہیں ملتا اورملازمت پیشہ لوگوں کو محدود طبی انشورنس کی سہولت حاصل ہے۔ان حالات میں حکومت کی جانب سے پاکستان جیسے کرپشن زدہ ملک میں تقریباً سوا کروڑ انتہائی غریب افراد کوآن لائن تصدیق کے بعد احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے پوری ایمانداری سے فراہم کرنا ایک بڑی سماجی تبدیلی کی جانب قدم شمار کیا جا سکتا ہے ۔وبا کے دنوں میں ہی نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان بھی پاکستان میں ایک بڑی سماجی تبدیلی کی جانب قدم ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ درست طریقے سے چل گیا تو بے گھر افراد قرض پر لیے گئے اپنے مکان کی قسطیں ادا کرنے کے لیے سخت محنت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس سماجی تبدیلی کو جاری رکھنے میں کسی بھی حکومت کا کردار یہ ہوگا کہ وہ عام شہریوں کے لیے روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرتی رہے۔