عشقِ الٰہی عشق کی معراج
عشق کی انتہا کی طلب بھی توفیقات میں سے ایک ہے۔یہ آرزو سینہ بہ سینہ سفر کرتی اقبال تک پہنچی تو مصرعے میں ڈھل گئی اور اقبال بے اختیار گویا ہوئے ـ’’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘‘۔ بلاشبہ اس آرزو اور اس توفیق کو دوام ہے۔ اسی کے توسط سے ہر عاشق، عشق کی انتہا چاہتا ہے۔ عاشقین عشق کے عین میں حلول ہو کر عشق کے قاف میں سرمست رہتے ہیں اور قاف کی طرح قالبِ یار میں خود کو ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں عشق کا عین، عین عشق ہے۔ گویا اس نگر میں پہلا قدم ہی آخری قدم ہے۔ عشق کسی کے لئے مخصوص نہیں۔ اس کے ہاں تخصیص و تفریق نہیں۔ وہ امتیاز نہیں کرتا۔ عشق عین عشق ہے، جو کسی بھی صورت میں جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ طلب زندہ رہے تو یہ جسم میں روح کی مثل ڈھل جاتا ہے۔ عشق حیات ہے۔ یہ کئی صورتوں میں زندہ ہے۔ یہ کئی صورت سے عیاں ہو جاتاہے۔ تصویر سے مصور نظر آنے لگے تو عشق کی حرارت فزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہرشے میں یار کا جلوہ دکھائی دینے لگے تو عشق کی شین میں شدت آتی چلی جاتی ہے۔ عشق ہی راہیوں کو رُو بہ منزل کرتا ہے۔ عشق حقیقت ہے۔ حقیقت بالآخر حقیقت تک پہنچ جاتی ہے۔ سب سے بڑی حقیقت عشقِ خالقِ حقیقی ہے، عین تا قاف عشق جس پہ قربان ہے۔ جو مجاز حقیقت تک پہنچا دے، وہ مجاز بھی عین حقیقت ہے۔ درحقیقت، حقیقت کے سوا خسارہ در خسارہ ہے۔ زاہد نہیں، عاشق اک جست میں یہ سفر طے کرتا ہے۔ داغ دہلوی نے کہا تھا:
؎عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
دنیا بھر کا عشق خالقِ حقیقی کے عشق کے مقابل بھلا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ یہ فنا و بقا کی مثل ہے۔ مجاز و حقیقت کو فنا و بقا کی ذیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ باقی کو ہی بقا ہے اور بقا سے ہی کوئی باقی ہے۔ باقی کا عشق طلب کرنا چاہئے۔ منزل یہی ہے۔ اس سفر کی گَرد بھی نصیب ہو جائے تو اس کا کفارہ نہیں ادا کیا جا سکتا۔ یہ اس ذاتِ بے کراں کا عشق ہے، جو ایک قطرہء آلود کو جِلا بخشتا اور پھر اس کے سینے کو اپنے نُور سے منور کرتا ہے۔ وہ، جوکائنات میں نہیں سماتا مگر دل میں سما جاتا اور دل کی دھڑکن بن کر دھڑکتا ہے۔ وہ، جو آہٹوں اور سسکیوں میں رہتا ہے اور آنسو ئوں کی صورت چشمِ تر سے بہتا ہے۔ وہ، جو شبِ ظلمت اور ظلمتِ شب میں واحد امید کی کرن بن جاتا ہے۔ وہ، جو یعقوبؑ کو محبوب کے پیرہن سے بینائی عطا کرتا ہے۔ وہی حیّ یاقیوم، جس کا عشق سینے میں جاگزیں ہو جائے تو سینے میں آویزاں حقیقی کعبے کے سبھی بُت پاش پاش ہو جاتے ہیں اور وہ یار کا مستقر ٹھہرتا ہے۔ توحید کا عَلَم بلند ہوتا ہے۔ عشق کا دِیا جلنے لگتا ہے۔ خلوت و جلوت میں، مسام مسام سے خالقِ حقیقی کا عشق نمودار ہوتا ہے۔ قلب اللہ ھُو کے ذکر میں جاری رہتا ہے۔ چہار جانب اسی کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا:
؎جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
عاشقین و صادقین کا چلن ہی جدا ہے۔ وہ کسی دم غافل نہیں ہوتے۔ ان کی ہر ساعت خالق و مالک کی یاد اور اس کے ذکر میں گزرتی ہے۔ وہ اس فیضان سے فیضیاب ہوئے ہوتے ہیں: ’’جو دم غافل سو دم کافر مرشدایہہ پڑھایا ہُو‘‘۔ حق بھی یہ ہے کہ اسے پل پل، لمحہ لمحہ، ساعت ساعت یاد کیا جائے۔ مناجات میں آنکھیں چھم چھم برسیں اور لب گویا ہوں: ہم تمھارے ہو جائیں ، تُو ہمارا ہو جائے۔ ہم تجھے دیکھیں، دیکھتے رہ جائیں۔ تُو ہمیں دیکھے، دیکھتا رہ جائے۔ اے مالکِ کون و مکاں! ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں۔ ہم اس سے کم پہ اکتفا کرنے والوں میں سے نہیں، ہرگز نہیں۔ تُو میسر نہ آئے تو سب بیکار ہے، بے سود ہے، بے ثمر ہے۔ یہی ماحصل ہے۔ عاشقین اس کے سوا، کسی منزل کو قبول نہیں کرتے۔ عاشقین کا شمار واصلین میں ہوتا ہے۔ وصل کی آرزو بھی بڑی آرزو ہے۔ مَیں اور تُو کا فاصلہ مٹ کر رہ جاتا ہے۔ عشقِ الٰہی عشق کی معراج ہے اور معراج پہ جانا محبوبﷺ کی سنت ہے۔ یہ سنت بھی رُو بہ عمل ہو جائے تو بات ہے۔ رُو بہ رُو، دُو بہ دُو گفتگو کی بات اور ہے۔ یہ تڑپ ہی محرک ہے۔ یہ جسم کو گرماتی ہے، روح کو تڑپاتی ہے۔ یہ تڑپ ہر پل جلوہ ء یار میں تڑپتی اور تڑپاتی ہے۔ بیدم شاہ وارثی کے مصرعے دیکھئے:
؎بیدم نماز عشق یہی ہے خدا گواہ
ہر دم تصور رخ جانانہ چاہئے
عشق ظاہر وباطن کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ زاویہ ء نگاہ اور نقطہ ء نظر بدل کر رہ جاتا ہے۔اللہ کے کنبے میں سے کوئی آنکھ میں کھٹکتا نہیں، بلکہ مخلوق آنکھ کو بھاتی ہے۔ خالق کی مخلوق کا درد اپنے سینے میں شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ کسی کی آنکھ نم ہو تو اپنی آنکھ بھی تَر رہتی ہے۔ کوئی مصائب سے دوچار ہو تو اپنا من بھی تلملا اٹھتا ہے۔ کسی کی آہیں اور سسکیاں اپنا روگ بن جاتی ہیں۔ کوئی صاحبِ فراش ہو تو اپنے جسم سے بھی جان نکلتی محسوس ہوتی ہے۔مخلوق کا یہ درد اور احساس نصیب ہو جائے تو خالق کا قرب میسر آنے میں دیر نہیں لگتی۔
اس کے کنبے کا درد اپنے سینے میں پالا جائے تو وہ فرشتوں کی محفل میں گویا ہوتا ہے: یہی وہ لوگ ہیں، جن کی بابت میں نے راندہ ء آستاں سے کہا تھا: تم میرے ان مخلصین کو کبھی بہکا نہ سکو گے، چاہے بیسیوں حربے کر گزرو۔ تاہم! نکتہ یہ ہے کہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا لینے کی مشق ہی کارگر ہو سکتی ہے۔ یہ تمامی حجابات اٹھ جانے کے باعث ہے۔ اسی کے سبب دیدارِ حق مقدر ہوتا ہے اور تجلیات کا ظہور ہوتا چلا جاتا ہے۔انگ انگ عشق کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ مستی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ دیدہ ء بینا عطا ہو جائے تو بات بن جاتی ہے۔ رموز عشقِ الٰہی کے شناور، جنابِ اقبال نے کہا تھا:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ ء دل وا کرے کوئی