منگل ‘ 22؍ذیقعد 1441 ھ‘ 14؍جولائی 2020ء
پشاور بی آر ٹی تعمیر کرنے والی کمپنی نے مزید 3 میگا پراجیکٹس حاصل کر لئے
لگتا ہے حکومت کو پشاور بی آر ٹی بنانے والی کمپنی کی کارکردگی کچھ زیادہ ہی پسند آ گئی ہے۔ جبھی تو انہیں مزیدتین میگا پراجیکٹس کی تعمیر کا ٹھیکہ دیدیا ہے۔ اسے اعلیٰ کارکردگی کا بہترین صلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر کسی اور ملک میں کسی تعمیراتی کمپنی نے اعلیٰ کارکردگی کی ایسی مثال پیش کی ہوتی تو اسے کب کا مالکان سمیت سمندربردکیا جا چکا ہوتا۔ مگر ہمارے ہاں ایسی کارکردگی پر بہترین صلہ دیا جاتا ہے۔ جتنا منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گا۔ اسکے اخراجات بڑھیں۔ یہ اخرجات کمپنی والوں نے اپنی جیب سے تو دینے نہیں ہوتے۔ یہ حکومتی خزانے سے ادا ہوتے ہیں۔ اس طرح فنڈز جاری کرنے والے اور تعمیراتی کمپنی دونوں معقول کمیشن اور فائدہ سمیٹتے ہیں۔ سچ کہتے ہیں ’’مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ‘‘ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔ یہ بات ہمارے ہاں تو سو فیصددرست نظر آتی ہے جس کمپنی سے پشاور بی آر ٹی کا منصوبہ مقررہ وقت سے کئی سال زیادہ ہونے کے باوجود نہیں بنا وہ بھلا بڑے بڑے تین مزیدمیگا پراجیکٹس کب مکمل کر پائے گی۔ اب یا تو اس پشاور بی آر ٹی منصوبے کی ناقص منصوبہ بندی ہے۔ صوبائی حکومت کا ہاتھ ہے جو بنا کسی منصوبہ بندی کے یہ کام شروع کر کے پچھتا رہی ہے کہ پیسہ بھی برباد ہو رہا اور کام بھی بار بار افتتاح کی تاریخ دینے کے باوجود مکمل نہیں ہو رہا۔ قومی خزانے کے اربوں روپے بربادجس نے بھی کئے اسے بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے مگر یہ کام کرے گا کون…
٭٭٭٭
وزیراعظم کرونا کنٹرول کے لئے فوراً کرفیو لگائیں۔ رحمان ملک
اگر یہ کام پہلے ہو جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ اب تو اچھا مشورہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم اس پر عمل نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ بہت وقت گزرچکا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ بھی اسی قسم کے اقدامات کے لئے زور دیتے رہے ہیں مگر ان کی بھی کسی نے نہ سنی۔ اب تو لوگ بھی کرفیو کی پابندیاں برداشت نہیں کر پائیں گے وہ تو سمارٹ لاک ڈائون برداشت نہیں کر رہے مکمل لاک ڈائون یا کرفیو کے تو نام سے ہی بدکنے لگتے ہیں، ہماری کمزور معیشت اور معاشی بدحالی کا سب سے زیادہ شکار عام آدمی ہوتا ہے جو اس ملک کا 80 فیصد ہے یہ عام آدمی جیتا ہی صرف روٹی کھانے اور کپڑا پہننے کی تگ دو کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بچتا ہے وہ یوٹیلٹی بلز اور مکان کے کرایہ پرخرچ ہوتا ہے۔ وہ گھر بیٹھ گیا۔ روزگار بندہو گیا تو بھوکوں مرے گا۔ یا تو حکومت پہلے گھر گھر خوراک پہنچانے کا کوئی نظام ترتیب دے پھر اس کے بعدبے شک کرفیو لگائے ورنہ آئے روز کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کے حالات کرونا سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ اتنے لوگ کرونا سے نہیں مریں گے جتنا کرفیو کی خلاف ورزی کرنے سے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت احتیاط اور سماجی فاصلے برقرار رکھنے کی ہے۔ یہی علاج بھی ہے اور خوبصورت سا کرفیو بھی…
٭٭٭
حبیب جان بلوچ کے بیان نے نئی بحث چھیڑ کر سیاسی گرمی میں اضافہ کر دیا
اب پی ٹی آئی والے ہوں یا پیپلز پارٹی والے دونوں اس بیان کو من مرضی کا رنگ دے رہے ہیں۔ سچ جھوٹ کا فیصلہ تو بعدمیں ہو گا اس وقت تو سیاسی ہوٹل میں
اگر ساز چھیڑ ا ترانے بنیں گے
ترانے بنے تو فسانے بنیں گے
والا نغمہ گاہکوں کی فرمائش پر خوب نشر ہو رہا ہے جو چینل اٹھائیں وہاں حبیب جان بلوچ کی آواز میں یہی نغمہ نشر ہو رہا ہے۔ اس بیان سے تو لگتا ہے۔ عزیر بلوچ کی پی پی پی اور پی ٹی آئی دونوں سے اچھی سلام دعا تھی۔ جب تک پی پی پی کا عروج رہا اس کے رہنما عزیر بلوچ کو اپنا بچہ قرار دیتے رہے مطب نکل گیا تو پھر آنکھیں پھیر لیں۔ مگر جو کچھ انہوں نے عزیر بلوچ اور اس کے کارندوں سے کرایا اب عزیر بلوچ وہ سب راز جانتا ہے۔ کچھ تفتیش کاروں کے سامنے اگل بھی چکا ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی کراچی میں انٹری کے لئے عزیر بلوچ کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہا مگر غالباً بات زیادہ آگے نہیں بڑھی یہ معاملات ابتدائی مراحل میں ہی تھے کہ عزیر بلوچ گرفتار ہوا۔ یہ کہانی ہے تو بہت پراسرار اور دلچسپ اب یہ خفیہ والے ہی جانتے ہوں گے عزیر بلوچ سے کس کس نے کیا کرایا اور اسے اپنا بنانے کی کوشش کی……
٭٭٭٭
امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بالآخر ماسک پہن لیا
صدر ٹرمپ پر بہت سے حلقوں کی طرف سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ کرونا وائرس کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کررہے۔ خود ٹرمپ صاحب بھی اپنے بیانات میں ان حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے والوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں مگر اب اچانک اسی ماسک کو پہن کر جب وہ ایک سرکاری تقریب میں آئے تو بہت سے لوگ انہیں یوں دیکھنے لگے جیسے کسی مزاحیہ فلم کا کوئی کردار ہو یا کسی سنسنی خیز فلم کا اداکار ویسے تو دونو ںباتیں ٹرمپ جی پر فٹ بیٹھتی ہیں میرے خیال میں تو بات کچھ اور ہے جب امریکہ کے کئی شہروں میں ماسک اور حفاظتی پابندیوں کو ختم کرنے کے مظاہرے ہورہے ہیں تو ٹرمپ جی نے یہ اچانک ماسک کیوں پہن لیا منہ کیوں چھپا لیا۔ شاید وہ اس لئے منہ چھپا رہے ہیں کہ اپنے ایک دوست کو جو کاروباری ہیں انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سزا میں رعایت دی اور اس کی جان چھڑائی۔ ان کے اس اقدام پر پورے ملک میں کافی لے دے ہورہی ہے کہیں اپنے اس کرتوت کی وجہ سے وہ منہ چھپاتے تو نہیں پھر رہے۔ ان کے نامہ اعمال میں اور بھی بہت سے ایسے اعمال ہیں جن پر انہیں منہ چھپانا چاہئے مگر انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا اب اچانک کرونا سے حفاظت کیلئے ماسک پہن کر تو امریکی صدر کسی خطرناک مافیا کا ڈان لگ رہے تھے۔
٭٭٭