وزیر اعظم، عمران خاں نے یومِ شہدائے کشمیر کے موقع پرایک پیغام میں کہا ہے کہ ہم جموں و کشمیر پر غیرقانونی و جابرانہ بھارتی قبضے کیخلاف جاری جدوجہد پر اہل کشمیر کو سلام پیش کرتے ہیں۔گزشتہ روز وادی جموں کشمیر ، آزاد کشمیر ، پاکستان اور امریکہ،برطانیہ،فرانس،ہالینڈ ، جاپان اور دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا گیا۔
13 جولائی انیس سو اکتیس کو، ڈوگرہ مہاراجہ کی سیکورٹی فورسزنے بے رحمی سے فائر کھول دیا اور آزادی کی تڑپ سے سرشار کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔یہ کشمیر کی تحریک آزادی کا آغاز تھا، تب سے اب تک بے گناہوں کا خون مسلسل بہایاجا رہا ہے۔ کشمیر کی سرزمیں کے اُفق پر ا سی سرخی کا رنگ غالب ہے۔یہ خون کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں اتر آتا ہے تو وہ دیوانہ وار سامراجی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ایک لاکھ سے زائد قبروں کے سرہانے شہیدوں کے نام کندہ ہیں۔بر صغیر سے انگریز رخصت ہونے لگا تو آزادی کے فارمولے میں طے کر دیا گیا تھا کہ مسلم آبادی کی اکثریت والے ملحقہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے مگر ایک بار پھر کشمیری مہاراجہ نے غداری اور بے اصولی کا ارتکاب کیا اور بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے جس پر عمل درا ٓمد کے لئے بھارتی فوجیں سری نگر اتر گئیں۔ قبائلی لشکر نے کشمیر میں موجود بھارتی لشکر کو للکارا، قریب تھا کہ وہ سری نگر ایئر پورٹ پر قابض ہو جاتے اور بھارت کی سپلائی لائن کاٹ کر رکھ دیتے کہ بھارت نے چالاکی اور عیاری سے سلامتی کونسل کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لئے جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو گئی مگر اس میں طے کیا گیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ، غیر جانبدارنہ استصواب کے ذریعے کیا جائے گا، وہ دن، آج کا دن، بھارت نے اس قرارداد پر عمل درا ٓمد کی نوبت نہیںآنے دی، اس نے جب کبھی ریاستی انتخابات کروائے تو یہ دعوی کر دیا کہ یہی استصواب ہے۔پاکستان کی حکومتیں عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگرکر نے میںکوشاں رہیں۔جنرل مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری آج بھی مصر ہیں کہ عدلیہ اور وکلا تحریک نہ چلتی تو کشمیر کا مسئلہ طے ہو چکا ہوتا، اس کے لئے ایک معاہدہ طے کر لیا گیا تھا اور محض شین قاف درست کی جارہی تھی کہ پاکستان اندرونی عدم استحکام سے دو چار ہو گیا۔نائن الیون کے بعد ایک صلیبی جنگ کا بگل بجا جس کا نشانہ بظاہر القاعدہ تھی لیکن اصل میں ساری مسلم دنیا اس کا ٹارگٹ بنی ۔اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔کشمیر میں آج بھی خون ناحق بہہ رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میںبھارتی فوجیں اس چھوٹی سی ریاست کے کونے کھدرے میں شب روز چھاپے مارتی ہیں اورجس کو چاہے گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔یا خفیہ کوٹھڑیوں میں بند کر دیتی ہیں، کشمیری قیادت پر جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔مسجدیں شہید کی جاتی ہیں، مزاروں کو آگ لگائی جاتی ہے، کھیتیوں پر بلڈوزر چلا دئے جاتے ہیں۔دکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ایک منظم سازش کے تحت نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دنیا تو ہٹلر کے ایک ہولو کاسٹ کو روتی ہے، کشمیر میںا ٓئے روز ہولوکاسٹ کا ہولناک منظر رونما ہوتا ہے۔کشمیریوں کی نوجوان نسل کو چن چن کر شہید کیا جاچکا ہے اور بھارتی استبداد کی کوشش ہے کہ دس بیس برس بعد کشمیر کا نام لیوا کوئی نہ ہو۔کیا ہم پاکستانی اپنے فرض کی ادائیگی میں سنجیدہ ہیں۔کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی شہید ہو رہے ہیں۔ ہم نے تو سندھ میں ایک مظلوم لڑکی کی پکار پر راجہ داہر کا قلع قمع کر دیا تھا، اب کشمیری خواتین ہر روزہمیں پکارتی ہیں اور ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم انڈیا میں شہر یار خاں کو نمائندہ خصوصی کے طور پر بھیج کردوستی کا پیغام دیتے ہیں۔ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خواہش تھی کہ ان کی رسم حلف برداری میں بھارتی وزیر اعظم شرکت فرمائیں، یہ بھی کہا کہ بھارت بلائے یہ نہ بلائے، میں بھارت کو دورہ ضرور کروں گا۔سیفماکے اجلاس میں میاں نواز شریف جو کچھ کہہ چکے، اس کو میرا قلم اپنی نوک پر لانے کا روا دار نہیں ہے۔ہماری قوم نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کے مابین مسکراہٹوں کے تبادلے پر خفگی کا اظہار کیا، سارک کانفرنس کے لئے راجیو اسلام آباد آئے تو محترمہ نے سڑکوں سے کشمیر ہاس کا بورڈ اترو ادیا، پی ٹی وی سے کشمیری خبر نامہ اڑا دیا اور سری نگر کے موسم تک کا احوال بیان کرنا ترک کر دیا۔کیاپی پی پی اور پاکستان کی بانی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگی جماعت کے درمیان انڈیا سے دوستی کے بارے میں کوئی فرق نہیں، کیا دونوں کو کشمیریوں کے خون کی کوئی پروا نہیں۔میاں نواز شریف اپنے آپ کو کشمیری نژاد کہتے ہیں تو وہ کشمیریوں کی ابتلا کو کیوں بھول رہے ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مسئلہ بھر پور انداز میں اٹھایا اور دنیا کو خبر دار کیا کہ اس مسئلے کو استصواب کے ذریعے حل کیا جائے ورنہ خطے میں نئی جنگ لگی تو تباہی کا دائرہ بہت دور تک پھیلے گا انہوں نے بھارتی آئین سے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے نکالنے پر احتجاج کیا اور کشمیریوں کو لاک ڈائون اور کرفیو کی پابندیوں میں ڈالنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ خود بھارت کو بھی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف مہم جوئی سے بعض رہے کیونکہ وہ اس کا مزہ پچھلے سال ستائیس فروری کو اچھی طرح چکھ چکا ہے اب تو او آئی سی کے رابطہ گروپ نے بھی بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کردی ہے اور بہتر ہوگا کہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ہوسکے ۔ تاکہ کشمیریوں پر جبر کے طویل دور کا خاتمہ ہوسکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38