وزیراعظم عمران خان نے ریکوڈک کیس میں عالمی بینک کے ٹریبونل کی جانب سے پاکستان پر عائد جرمانے کی چھان بین کے لیے کمیشن بنانے کی ہدایت کر دی۔
کمیشن تحقیقات کرے گا یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور پاکستان کو جرمانہ کیوں ہوا، کمیشن ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین بھی کرے گا۔
حکومت پاکستان نے ریکوڈک کیس پر مایوسی کا اظہار کیا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق عالمی عدالت نے کئی سو صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعہ کے روز سنایا، اٹارنی جنرل آفس اور صوبائی حکومت بلوچستان فیصلے کے قانونی اورمالی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں حکومت پاکستان مشاورت سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
گزشتہ روز عالمی بینک کے بین الاقوامی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے ریکوڈک کیس میں پاکستان پر تقریباً 6 ارب ڈالر جرمانہ کیا تھا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق وزیراعظم نے ریکوڈک کیس کے ناخوشگوار انجام کی چھان بین کے لیے کمیشن بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔
اٹارنی جنرل آفس کے مطابق کمیشن ناکامی کی وجوہات اور ذمے داروں کا تعین کرے گا اور حکومت پاکستان سمجھوتے کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی کے سی ای او کے بیان کو خوش آمدید کہتی ہے، حکومت پاکستان کمپنی سے باہمی فائدے کے لیے بات چیت پر تیار ہے۔
ریکوڈک کیس
واضح رہے کہ حکومت پاکستان اور اٹلی کی کمپنی ٹی سی سی کے درمیان یہ کیس عالمی ثالثی ادارے میں 7 سال تک جاری رہا۔
ٹی سی سی نے 12 جنوری 2012 کو مقدمہ دائر کیا تھا جبکہ آئی سی ایس آئی ڈی نے اس کی سماعت کے لیے ٹریبیونل 12 جولائی 2012 کو قائم کیا تھا۔
جرمنی کے کلوز ساکس نے ٹریبیونل کی سربراہی کی جہاں بلغاریہ کے اسٹانیمیر اے الیگزینڈوو نے ٹی سی سی کی نمائندگی کی اور برطانیہ کے لیونارڈ ہوف مین نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
ریکو ڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں 'ریت کا ٹیلہ' ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔
ریکو ڈک میں کم درجے کا تانبے کے کل ذخائر 5.9 ارب ٹن ہیں جبکہ درمیانے درجے کا تانبہ اس کا 0.41 فیصد ہے اور سونے کے درجے کا 0.22 گرام فی ٹن موجود ہے۔
اس ذخیرے میں کان کنی کرنے کے لائق حصے کا تخمینہ 2.2 ارب ٹن لگایا گیا ہے جہاں درمیانے درجے کا تانبہ 0.53 فیصد اور سونا 0.30 گرام فی ٹن ہے جس کی سالانہ پیداوار 2 لاکھ ٹن تانبہ اور 2.5 لاکھ اونس سونا ہے۔
ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
جولائی 1993میں اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکا آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔
بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔
آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔
بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔
بلوچستان حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔
بعد ازاں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔