مقبوضہ کشمیر کے مسلمان گزشتہ 71سال سے جبر و استبداد کی چکّی میں پس رہے ہیں۔ ان کی خواتین اور بچوں کو بھی قابض بھارتی افواج کی طرف سے بے حرمتی اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں زیادہ تر قبریں 18تا 25سالہ نوجوانوں کی ہیں جنہوں نے بھارتی افواج کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ہزارہا کشمیری نوجوانوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیاں غائب کر چکی ہیں۔ مقبوضہ وادی کے مختلف مقامات پر دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں بھارتی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ تمام مظالم بھی کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکے اور ان کا جذبۂ آزادی روز بروز طاقت پکڑ رہا ہے۔ آبروئے صحافت محترم مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ ہندو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے‘ لہٰذا کشمیر مذاکرات سے نہیں‘ بزور شمشیر یعنی جہاد کا راستہ اپنا کر حاصل کرنا پڑے گا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں جو پیلٹ گنوں اور اور دیگر مہلک اسلحہ سے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی اور خطے میں ایسا ہو رہا ہوتا تو انسانی حقوق کی نام نہاد چیمپیٔن عالمی طاقتیں آسمان سر پر اُٹھا لیتیں مگر مقبوضہ وادی میں چونکہ مسلمان بستے ہیں‘ لہٰذا اِن دل سوز واقعات کا نوٹس نہیں لیا جا رہا تاہم اب ایک اُمید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے گزشتہ سال اور حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کا تفصیلاً ذکر ہے۔ ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے اور آہستہ آہستہ ہی سہی‘ عالمی برادری کا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کی ملّی و قومی اُمنگوں کا ترجمان اور ان کے حقِ خودارادیت کا علمبردار ادارہ ہے۔ اس کے سابق چیئرمین محترم مجید نظامی نے خود کو اور ادارۂ نوائے وقت کو کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو اُجاگر کرنے کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کشمیری عوام انہیں اپنا محسن تصور کرتے ہیں اور آج بھی انہیں محبت و عقیدت سے ’’مجاہد کشمیر‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے وضع کردہ رہنما اصول کے تحت یہ قومی نظریاتی ادارہ کشمیر سے متعلقہ دیگر ایّام کے علاوہ یومِ شہدائے کشمیر پر بھی خصوصی نشست کا انعقاد کرتا ہے۔ اس بار یہ نشست ایوانِ قائداعظمؒ جوہر ٹائون لاہور میں کشمیر ایکشن کمیٹی کے اشتراک سے منعقد ہوئی جس کے مہمانِ خاص قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام تھے۔ نشست کے آغاز پر قاری خالد محمود نے انتہائی خوش الحانی سے تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ تحریکِ پاکستان کے گولڈمیڈلسٹ کارکن اور شاعرِ تحریکِ پاکستان ظہیر نیاز بیگی کے فرزند توقیر احمد گوندل نے امام سید احمد رضابریلویؒ کا نعتیہ کلام ’’اللہ اللہ شہِ کونینؐ جلالت تیری‘‘ بڑے دل سوز انداز میں پیش کر کے حاضرین پر روحانی کیف طاری کر دیا۔
سید فخر امام کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ وادی پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جس دستاویزِ الحاق (Instrument of Accession)کو بنیاد بناتا ہے، اسے آج تک کسی نے دیکھا تک نہیں حتیٰ کہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی دو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہیں جن میں پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کے ضمن میں کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کے لیے استصواب رائے کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اسے ان قراردادوں کی کوئی پروا نہیں ہے مگر ہمیں انہی قراردادوں کی بنیاد پر دنیا کے اُن دارالحکومتوں میں کشمیر کاز کے لیے لابی کرنی چاہیے جن کی معیشت بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ یوں بھی اب اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے جاری کردہ دونوں رپورٹیں ہمارے بیانیے کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ 1984ء میں مسز اندرا گاندھی کے قتل کے بعد منعقدہ بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ حالیہ انتخابات میں اسے لینڈ سلائڈ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس سے بھارتی رائے عامہ پر ہندو انتہا پسندی کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سید فخر امام نے انتباہ کیا کہ نریندرا مودی، امیت شاہ اور رام مادھیو پر مشتمل بھارتی قیادت کی موجودہ تکون پاکستان اور کشمیر کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ تینوں بھارتی آئین میں ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور وہاں کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی خاطر کشمیری ہندوپنڈتوں اور سابق بھارتی فوجیوں کو بسانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
جسٹس(ر) سید شریف حسین بخاری نے اپنے خطاب میں اس امر پر زور دیا کہ نہتے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کو یہ مسئلہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) میں اُٹھانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کا انصاف‘ سچ اور کشمیری عوام کی رائے پر مبنی تصفیہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان دیر پا امن کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہدرشید نے نشست کے آغاز پر مقررین اور حاضرین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کو سلام پیش کیا۔ انہوں نے یومِ شہدائے کشمیر کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ 13جولائی 1931ء کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا نکتۂ آغاز ہے۔ اس دن سری نگر جیل کے باہر کشمیری عوام کا جم غفیر جمع تھا کیونکہ جیل کے اندر ایک مسلمان نوجوان عبدالقدیر خان پر مقدمہ کی کارروائی جاری تھی۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو ایک نوجوان نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کی مگر اسے گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ بس پھر کیا تھا، جہاں سے اس نوجوان شہید نے اذان ادھوری چھوڑی تھی، وہاں سے دوسرے نوجوان نے اذان دینا شروع کر دی۔ اسے بھی شہید کر دیا گیا حتیٰ کہ اس ایک اذان کی تکمیل کی خاطر 22نوجوانوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ ان شہیدوں کے پاک خون نے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں نیا رنگ بھر دیا۔ ان شاء اللہ! ہم اس رنگ کو پھیکا نہیں پڑنے دیں گے اور مقبوضہ وادی میں آزادی کا سورج طلوع ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ نشست میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف، قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کے رُکن صاحبزادہ غلام محی الدین دیوان، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، نظریۂ پاکستان فورم آزاد کشمیر کے صدر مولانا محمد شفیع جوش، معروف دانشور قیوم نظامی، ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود، کشمیر ایکشن کمیٹی کی نائب صدر میمونہ اعظم، کشمیری رہنمائوں سید نصیب اللہ گردیزی اور فاروق خان آزاد نے بھی اظہارِ خیال کیا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024