اتوار ‘ 10؍ ذیقعد 1440ھ‘ 14؍جولائی 2019ء
مولانا فضل الرحمن کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات
یہ کیا کر دیا نیب نے۔ ابھی دشت سیاست میں ریت کے بگولوں کا رقص جاری تھا کہ ایک نئے طوفان کو چھیڑ دیا۔ آمدن سے زائد اثاثے بنانے پرمولانا فضل الرحمن کے خلاف تحقیقات کی منظوری۔ دیدی ایک ایسا جان دوز تیر ہے جو نشانے پر لگے یا نہ لگے۔ مگر آندھی اور طوفان کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہو گا۔ مولانا تو اس خبر پر جلال میں آ گئے ہیں۔ حالانکہ انہیں چاہئے تھا وہ اطمینان رکھتے اور نیب والوں سے کہتے کہ آئو دیکھو میرے پاس کیا ہے۔ ہاتھ صاف اور خالی ہوں دامن پر ڈیزل کے داغ نہ ہوں تو ڈر کا ہے کا۔ مگر وہ تو کہہ رہے ہیں نیب جائے بھاڑ میں نوٹس جائے چولہے میں۔ اگر کوئی نوٹس ملا بھی تو پھاڑ دوں گا۔ بیان سے تو لگتا ہے اب حکومت کسی کا پیٹ پھاڑ کر ناجائز یا آمدنی سے زیادہ بنائے اثاثے برآمد کرے یا کوئی نوٹس پھاڑ کر میدان میں نکل کر مبازرات طلب کرے۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں جنگ ہی نکلتا ہے۔ ایک طرف حکومت مسلح سپاہ سے لیس ہے تو دوسری طرف مولانا بھی جے ٹی آئی کی ڈنڈے اور کلاشنکوف بردار فورس سے مزین ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ عید قرباں تک سیاسی میدان میں گہما گہمی بڑھے گی اور مون سون کی سیلابی بارشوں کے ساتھ ساتھ سیاسی طوفان بھی سر اٹھائے گا جو کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ ویسے ماضی قریب میں بابر اعوان کو بھی نوٹس ملا تو انہوں نے کیسی بے نیازی سے کہا تھا ’’نوٹس ملیا ککھ نہ ھلیا‘‘
مولانا بھی یہی کہتے تو مزہ آ جاتا۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں بلین ٹری منصوبے کی تحقیقات کیلئے کمشن نہ بن سکا
یہ بے ضرر مسکین سا کمشن بننا تھا۔ خیبر پی کے حکومت کی طرف سے لاکھوں نہیں کروڑوں درخت لگانے کے منصوبہ کی تحقیقات کیلئے اس کمشن کے قیام کو اس طرح تاخیر کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ پودا جڑ پکڑنے سے پہلے ہی مرجھا گیا۔ چلیں اچھا ہی ہوا حساب بے باق ہو گیا۔ اب نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ورنہ نکلتا ہی کیا۔ اس ریت کو چھاننے کے عمل سے۔ بقول شاعر؎
اس نے دریا میں ڈال دی ہوگی
یہ محبت بھی ایک نیکی تھی
اگر ان کروڑوں درختوں میں سے چند لاکھ ہی جڑ پکڑتے اور نمو پاتے تو آج کم از کم خیبر پی کے کی حکومت اپنی سابقہ کارکردگی کے طورپر ان سرسبز لہلاتے درختوں کو ہی پیش کرتی کہ یہ دیکھ لو وہ ہرے بھرے جنگل جو ہم نے لگائے ہیں‘ مگر افسوس پورے خیبر پی کے میں چھانگا مانگا جیسا مانگے تانگے کا ہی کوئی جنگل آباد نہ ہو سکا۔ اب تحقیقات بھی ٹھپ۔ یوں میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو تھو والا محاورہ سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ سوال یہی ہے کہ آخر وہ کروڑوں درخت کہاں گئے۔ جانوروں نے تو کھا نہیں لئے۔ تحقیقات ہوں تو جانوروں کے ایکسرے یا الٹرا سائونڈ کرانے سے پتہ چلے کہ کس کس نے یہ پودے کھائے ہیں۔ مگر جن جن ا افراد اور اداروں نے یہ پودے لگانے کے نام پر اربوں روپے کھا لئے ہیں‘ ان کا ایکسرے یا الٹرا سائونڈ کون کرے گا کرایا بھی تو کیا نکلے گا۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
سرکاری اداروں کو پرکھنے کیلئے میئر نے معذورکا روپ دھار لیا
معاف کیجئے خوش نہ ہوں۔ ایسا ہمارے ہاں نہیں ہوا۔ البتہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہمارے رحم دل قسم کے عباسی، ترک اور مغل بادشاہ رات کو بھیس بدل بدل کر اپنی رعایا کی خبر گیری کرتے تھے۔ اب معلوم نہیں رات کو جب بازار بند ہوتے تھے ۔ لوگ سوئے ہوئے ہوتے تھے تو یہ ظل سبحانی کن معاملات کی خیر گیری کرتے تھے۔ بہرحال اب اس جدید دور میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو ہمارے بادشاہوں کو فالو کرتے ہوئے رعایا کا حال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ خبر ہے کہ میکسیکو میں ایک شہر کے میئر نے سپیشل یعنی معذور افراد کی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ان کی شکایات پر خود ایک معذور کا روپ دھار لیا۔ یہاں حیوان ظریف چچا غالب یاد آ جاتے ہیں۔ انہوں نے ا یسے ہی کسی معاملے کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا۔ ؎…
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
سو یہ میئر صاحب بھی معذوروں کے بھیس بدل کر د و ماہ مسلسل ایسے تمام سرکاری اداروں اور نجی اداروں میں گئے اور وہاں کے افسران کا حسن سلوک نوٹ کرتے رہے۔ اب ظاہر ہے جو رپورٹ انہوں نے تیار کی ہو گی وہ سو فیصد درست ہی ہو گی۔ یہ ہوتے ہیں کرنے کے کام جو ہمارے ہاں نہیں ہوتے ۔ اب اس میئر کو دیکھ کر ہی اگر ہمارے عوامی نمائندے میدان عمل میں نکل آئیں تو بہت کام حکومت پر ڈالے بغیر ہی درست ہو سکتے ہیں ۔ مگر کیا کریں ہمارے ہاں جسے کوئی کرسی ملتی ہے وہ خود کو خاص سمجھنے لگتا ہے۔ یوں عام عوام سے اس کا رابطہ ہی نہیں رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭
دلت لڑکے سے شادی کرنے والی بی جے پی کے رہنما کی بیٹی کو جان کا خطرہ
دلت اور اقلیت دونوں کو بھارت میں ہر وقت جان اور مال کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ دلت بھی بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں تو اقلیت والے بھی کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اگر یہ دونوں مل جل کر برہمن سامراج کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیں تو پھر کوئی ان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہیں کرے گا۔ آج کل بھارت میں ایک نئی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ گائے کے بعد اب بی جے پی کے غنڈوں کی ٹولیاں سڑک پر چلتے کسی مسلمان کو یا کسی دکان دار کو گھیر کر اسے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے والے کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز تو ا کی مدرسہ کے طلبہ کو زخمی کیا گیا۔ یہ تو چلیں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی مثال ہے۔ جو ایک سیکولر کہلانے والے ملک میں عام ہے۔ اسی طرح بی جے پی کے ا یک رکن اسمبلی کی بیٹی نے اپنی پسند سے ایک دلت نوجوان سے شادی کر لی۔ بس پھر کیا اب سارا سنگھ پریوار بی جے پی اور دوسری انتہا پسند ہندو ہی نہیں اس کے گھر والوں بھی لڑکی اور لڑکے کے درپے ہو گئے ہیں۔ انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کیا پتہ ایسا جلد ہو بھی جائے۔ اب دولہا اور دلہن نے بھارتی پولیس سے مدد کی اپیل کی ہے۔ شاید وہ بھول رہے ہیں کہ پولیس بھی تو بی جے پی کی نوکر ہے۔ یہ صرف ذات پات کا فرق ہے ورنہ دونوں دلت ہو یا کھشتری یا برہمن سب ہندو ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ یہ برداشت نہیں کر پا رہے تو اقلیتوں کی کون سنے گا۔
٭٭٭٭٭