پاسپورٹ
گوجرانوالہ بار میں شیخ ایزد مسعود اور چودھری نثار مرحوم کے چیمبر کے برآمدے میں محمد حسین نام کا ایک ہنس مکھ اور مرنجاں مرنج قسم کا ٹائپسٹ ہوتا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ یہ 1979ءکا زمانہ تھا کیونکہ اسی سال میں بار کا ممبر بنا تھا۔ محمد حسین کے پاس وہی دقیانوسی اور از منہ ءوسطی کی ٹائپ مشین تھی جس کا فیتہ کسی غریبی دعوے کی ماڈرن عورت کے میک اپ کی مانند ہوتا۔ بار بار ربڑ کی مدد سے کئی لائنیں مٹائی اور دوبارہ سہ بارہ لکھی جاتیں۔ ایک لاغر و بیمار قسم کی میز اور کرسی اور محمد حسین کی باتیں، بس یہی اثاثہ تھا اس "دفتر" کا‘ لیکن ٹھہریئے محمد حسین سے پہلے بارے ذکر"ہیکٹرخادم"نام کے ایک کردار کاہوجائے۔ ہیکٹرخادم سے میری پہلی ملاقات نیویارک میں ہوئی۔ چودھری صادق، ہیکٹر خادم اور یونس تینوں بروکلین کے علاقے میں ایک مکان میں روم میٹ تھے۔ صادق طاہر سے ملنے جانا ہوتا تو زیادہ وقت ہیکٹر خادم سے گفتگو میںصرف ہو جاتا ۔ صادق طاہر تو ہمارے لئے کچن میں انواع و اقسام کے کھانے بنانے میں مصروف رہتا کیونکہ میری طرح یہ اس کا مشغلہ تھا۔ مجلسی لوگ جانتے ہیں کہ کھانا پکانے کے شوقین کس طرح دوستوں کو رنگا رنگ کھانے کھلاکر خود محظوظ ہوتے ہیں بلکہ جب وہ کھانا پکانے میں مصروف ہوں تو کسی کی مداخلت تک برداشت نہیںکرتے ۔کسی دوسرے کی مجال نہیں ہوتی کہ درمیان میں آکر چمچہ بھی چلا سکے۔ اگرچہ ہیکٹر خادم بھلے وقتوں میں لاہور کے "فلیٹز"ہوٹل میں ویٹر رہے تھے۔ ویٹر لوگ تو خود کھانا پکانے کے شوقین ہوتے ہیں مگر صورتحال یہ ہوتی کہ کچن میں صادق طاہر کے سوا کسی کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ میں ہیکٹر خادم اور یونس کے ساتھ (LIVING ROOM) میں بیٹھا کچھ اپنی سناتا اور کچھ ان کی سنتا۔ ہر موضوع پر گفتگو ہوتی۔ ہیکٹر خادم اور یونس مسیحی تھے۔ اس لئے کبھی کبھار مذہب پر بھی بات ہوجاتی۔ اگرچہ ہمارا بنیادی موضوع سیاست شعر وادب، تاریخ امریکہ اور غریب الوطنی سے آگے کم کم ہی جاتا۔ یونس کا پسندیدہ موضوع گفتنی و ناگفتی لطائف اور ہیکٹر کا موضوع سیاست، تاریخ امریکہ اور پاکستان کی یادیں ہوتا۔ وہ نیو یارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر کسی امریکی ایئر لائن کے "شیف" تھے۔ وہ ویٹر سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچے تھے۔ ان کی مستقل رہائش نیویارک کی ہمسایہ ریاست پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں تھی۔ اپنے روز گار کی خاطر انہیں ہفتے میں چار دن نیو یارک میں رہنا پڑتا تھا لہٰذا وہ صادق طاہر اور یونس کے روم میٹ بن گئے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ فلاڈیلفیا میں پاکستان کی کرسچئن کمیونٹی نہ صرف اکثریت میں بلکہ پاکستان کی نیک نامی کا سبب بھی ہے۔ ایک روز یونہی بیٹھے بیٹھے باہم گفتگو کرتے ہوئے انہیںپاکستان کی یادستانے لگی تو انہوںنے بتایا کہ ایک وقت وہ بھی تھا کہ پاکستان میں پاسپورٹ بنوانا کسی دودھ کی نہر نکالنے سے کم نہ تھا۔ ہم لوگ بہتر مستقبل کیلئے بیرون ملک جانا توچاہتے تھے، ویزا تک آجاتا تھا مگر پاسپورٹ نہیں بنتا تھا۔ میں فلیٹیز ہوٹل میں ویٹر تھا انگریزی بھی چونکہ کچھ اچھی تھی اس لئے خاص مہمانوں کی خدمت کیلئے ویٹروں کی ٹیم میں مجھے بھی شامل کیاجاتا جن میں دیگر بے شمارنامور لوگوں کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ ایوب خاں کی کابینہ سے فارغ ہوکر اب زیادہ تر فلیٹیز میں رہتے۔ انہیں میرا نام بڑا عجیب لگتا تھا اس لئے وہ آتے ہی مجھے بلا لیتے اور میں بھی دل وجان سے ان کی خدمت کرتا۔ ایک روز وہ خوشگوار موڈ میں تھے، مجھے کہا کہ کوئی کام ہو تو بتانا، جھٹ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور پاسپورٹ چاہیئے۔ بس ایک پاسپورٹ میری نسلوں تک کی زندگی بن جائیگی پاسپورٹ بنوانے کی خواہش کا اظہار سن کر بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ کراچی سے تمہارا کام کروا دوں گا۔ اور ایک دن 70 کلفٹن کراچی میں ان کے دروازے پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ بھٹو صاحب سے ملنے کیلئے کیا چارہ کرنا چاہیئے کیونکہ ان دنوں وہ اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بنا کر بڑے مصروف تھے کہ اتنے میں بھٹو صاحب گاڑی پر اپنی رہائش گاہ پہنچے اور مجھے دروازے پر کھڑا دیکھ کر اندر آنے کو کہا۔ میں نے پاسپورٹ بنوانے کی خواہش اور ان کے وعدے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے کسی ایسے افسر کے پاس بھیج دیا جو ان کاذاتی دوست تھا اور مجھ سے کہا کہ تم جاﺅ میں فون کردوں گا۔ ہیکٹرخادم افسر سے ملے اور کچھ دنوں بعد پاسپورٹ بنواکر لاہور اور پھر ہمیشہ کیلئے امریکہ پہنچ گئے۔ ایک بار سابق وزیر چودھری احمد مختار نے اپنی تقریرمیں کہا کہ وہ غالباً ایک جرنیل کی سفارش سے پاسپورٹ بنوانے میں کامیاب ہوسکے۔ ایسے مسائل کا بھٹو کو ادراک تھا چنانچہ جونہی وہ اقتدار میں آئے تو اپنے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم کو کہا کہ پاسپورٹ کا حصول ہر شخص کا حق ہے۔سب بے جا پابندیاں ختم کردو تاکہ جو چاہے اس سے استفادہ کرسکے اور یوں لوگوں کے پاسپورٹ بننا شروع ہوگئے۔ اس کی فیس بھی شاید 70 یا 75 روپے تھی اور وقت ایک ہفتہ ۔کئی لوگوں نے صرف شوق کی خاطر ہی پاسپورٹ بنوالئے کہ اتنی قیمتی دستاویزاب محمد حسین ٹائپسٹ کو سب خرچہ ملا کر ایک سو روپے دے کر حاصل کی جاسکتی تھی۔ تب گوجرانوالہ میں پاسپورٹ آفس نہیں تھا۔ محمد حسین فارم ٹائپ کرکے، بینک میں مطلوبہ فیس جمع کراکے ہفتے میں ایک دن سیالکوٹ جاتا۔ تیار شدہ پاسپورٹ لے آتا اور نئے جمع کرا دیتا۔ دنوں میں تو نہیں البتہ تقریباً دوسال تک محمد حسین کے لباس اور "دفتر" کی حالت بہت بہتر ہوگئی ۔ ایک باعزت زندگی گزارنے کیلئے انسان کے پاس جتنے وسائل ہونے چاہئیں‘ اب محمد حسین کو حاصل ہوچکے تھے وہ اللہ کا شکر ادا کرتا۔ اتنے میں خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب وغیرہ کے پاس دولت کا سیلاب آیا تووہاں نئے نئے شہر، بستیاں، ایئر پورٹ اور دیگر بڑے بڑے منصوبے بننا شروع ہوگئے۔ مزدوروں اور کاریگروں کی ضرورت پڑی تو ذوالفقار علی بھٹو نے ان ممالک سے معاہدے کرکے کئی خاندانوںکو روز گار کے مواقع مہیا کئے۔ دیہاتوں میں پکے مکان بن گئے۔ جنرل ضیاءالحق کا دور آیا تو "ہمت والوں" نے یورپ کا رخ کیا اور خود کو پاکستان پیپلز پارٹی کا ظاہر کرکے پہلے سیاسی پناہ اور پھران ممالک کی شہریت تک حاصل کرلی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ امریکہ بھی گئے۔ 1988ءمیں صدر بش(سینئر) نے ایک ایمنیسٹی سکیم کے تحت پورے امریکہ میں پھیلے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کو امریکی امیگریشن دینے کا اعلان کیا تو اکثر پاکستانیوں کو ایک بار پھر پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ وزیراعظم محمد خاں جونیجو امریکہ کے دورے پر گئے تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ تب ہادی رضا علی نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل اور اظہرالٰہی ملک وائس کونسل تھے جہنوں نے دن رات کام کرکے وقت پر پاسپورٹ تیار کرائے اور امریکہ میں مقیم لاکھوں پاکستانی امریکی شہری بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے صرف اٹیم بم اور آئین کا ذکر ہوتا ہے جبکہ پاسپورٹ کو عام کرنے کے کارنامے کو اجاگر کرنا2018ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ذرا سوچئے ان کے ایک فیصلے نے لاکھوں خاندانوں کو عزت کا رزق اور قومی خزانے کو بے شمار زر مبادلہ دیا۔