اسلام کا تصور احتساب
خلیفہ ثانی عمال کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیتے، انکے احتساب کا باقاعدہ نظام تھا، تقرری کے پروانے میں ہی اختیارات اور فرائض کی تفصیل موجود ہوتی تھی، حکم تھا کہ تعیناتی کی جگہ پر پہنچتے ہی یہ پروانہ عام مجمع میں پڑھ کر سنا دیا جائے کہ عوام الناس کو اپنے حقوق اور آپ کو اپنی حدود کے بارہ میں آگہی ہو جائے، تاکہ چیک اور بیلنس قائم رہے اور کوئی بھی اپنی حدود سے بڑھنے نہ پائے۔ہر عہدہ دار سے عہد لیا جاتا تھا کہ ”وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا، باریک کپڑے نہ پہنے گا، چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا، دربان نہیں رکھے گا، اہل حاجت کیلئے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھے گا، عمال کی روانگی کے وقت انکے سامان کی ایک فہرست سے زیادہ مال واسباب نکلتا تو باز پرس کی جاتی اور بحق بیت المال ضبط کر لیا جاتا تھا۔
تمام عمال کو حج کے موقع پر مکہ میں حاضری کا حکم تھا۔ ان کی موجودگی میں اعلان عام کیا جاتا کہ اگر کسی شخص کو کسی عامل سے شکائت ہو تو بیان کرے، لوگ اپنی شکایات پیش کرتے، جن کا موقع پر ہی ازالہ کر دیا جاتا تھا، ایسے ہی ایک اجتماع میں ایک شخص نے شکایت کی کہ فلاں عامل نے مجھے بلاوجہ سو کوڑے لگوائے ہیں، حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اٹھ کر بدلہ لو۔ عمرو بن العاص بھی موجود تھے، عرض کی کہ یوں سرعام توہین سے عمال بد ظن ہو جائینگے۔ حضرت عمرؓ نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے فریادی سے کہا اپنا کام کرو تاہم حاضر عمال کی کوششوں سے فریادی دو سو دینار لیکر اپنا دعویٰ واپس لینے پر آمادہ ہو گیا۔ عمال کو سادہ زندگی بسر کرنے کا حکم تھا، جس کسی کے بارے میں شکایت ملتی کہ اہل حاجت کی پہنچ سے باہر ہے اسے موقوف کر دیتے۔ مصر کے عامل عیاض بن غنم کے بارے میں شکایت ملی کہ شاہانہ طرز زندگی اختیار کر رکھا ہے، اچھا کھاتے ہیں، عمدہ پہنتے ہیں، انہیں موقوف ہی نہیں کیا بلکہ موٹا لباس پہنوا کر بکریاں بھی چروائیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ عامل کوفہ کے متعلق شکایت ملی کہ رہائش کو ڈیوڑھی اور دربان سے آراستہ کیا ہے، فوری کارروائی کرتے ہوئے ڈیوڑھی ہی جلوادی۔غرض عمال کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ وہ مخلوق خدا کے حاکم نہیں، خادم ہیں، ان میں اور عوام الناس میں کوئی فرق نہیں، بلکہ اختیار کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے خود اپنے لئے بھی وہی معیار مقرر کئے۔ کبھی کوئی دربان نہیں رکھا کہ عام لوگوں کو آپ تک پہنچنے میں دقت نہ ہو، روزانہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے کہ جس کو جو کچھ کہنا سننا ہو آزادی سے کہہ سکے۔
عمر و بن العاصؓ نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنوایا، آپ کو اطلاع ہوئی تو اظہار ناپسندیدگی کیا کہ تم اسے کیونکر پسند کرتے ہو کہ مسلمان نیچے زمین پر بیٹھیں اور تم اوپر بلندی پر۔ عمال پر سخت گرفت کا، آپ اس واقع سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عامل کو محض اس لئے برطرف کر دیا کہ اس نے بیمار غلام کی عیادت نہیں کی تھی۔
آج کل کے حکمران اور عمال قومی خزانے کو شیر مادر سمجھتے ہیں، اس کی حفاظت تو ایک طرف رہی، اسے للوں تللوں میں اڑاتا اپنا حق خیال کرتے ہیں۔ دراصل وہ اپنے آپ کو ہر قسم کی جواب دہی اور احتساب سے بالا گرد اتنے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حضرت عمرؓ کی خود احتسابی ملا خطہ ہو کر بیت المال کا اونٹ بھاگ گیا تو خود مارے مارے پھرتے ہیں، کسی نے پوچھا اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں، کسی غلام کو کہہ دیا ہوتا، بولے مجھ سے بڑھ کر غلام کون ہو سکتا ہے، اور تم نہیں جانتے کہ ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق ہے۔ بیمار پڑے تو دوا میں شہد تجویز ہوا، بیت المال میں موجود تھا۔ مگر از خود نہیں لیا، مسجد نبوی میں اجتماع عام میں مسلمانوں سے اس کے لئے اجازت لی۔ آپکے مرحوم بھائی زیدؓ کی ننھی بچی نے بیت المال کے زیورات سے ایک معمولی سی انگوٹھی لے کر پہن لی بھتیجی سے بے حد پیار تھا، لیکن فرض کا تقاضہ یہ کہ بچی کو بہلا پھسلا کر انگوٹھی اس سے واپس لے لی اور دوبارہ زیوارت کے ڈھیر میں ڈال دی۔ آجکل لوگ مال بنانے کے بہانے ڈھونڈھتے ہیں، سرکاری وسائل اور اثرورسوخ سے بنایا ہوا مال عین جائز خیال کرتے ہیں، حضرت عمرؓ کی احتیاط پسندی ملا خطہ ہو کہ ایک دفعہ ایک موٹا تازہ خوب پلا ہوا اونٹ بازار میں بکتا ہوا دیکھا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپکے صاحبزادے عبداللہ کا ہے، ان سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا، عرض کی کہ کچھ عرصہ پہلے خرید کر سرکاری چرا گاہ میں چھوڑ دیا تھا، اب ذرا پل گیا ہے تو اچھے دام دے رہا ہے، حضرت عمرؓ بولے، یہ سرکاری چراگاہ میں پلا ہے، تمہارا اس پر صرف اتنا حق ہے کہ جتنے کا خریدا تھا، چنانچہ جانور بیچ کر اس قدر رقم عبداللہ کے ہاتھ پر رکھی اور باقی بیت المال میں جمع کرا دی۔ حد سے بڑھی ہوئی احتیاط پسندی اور خود احتسابی کے یہ واقعات عہد جدید کے حکام و عمال کیلئے یقیناً چشم کشا ہیں۔ (جاری)
تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنیؓ فطری طور پر نہایت حلیم الطبع، نرم خو اور خطا پوش تھے، طبیعت میں عفوودر گزر کا عنصر غالب تھا اس لئے مواخذہ و احتساب میں عہد فاروقی جیسی سختی نہ تھی۔ پھر بھی کسی ایسی بدعنوانی کو نظر انداز نہ کرتے تھے جس سے اصول اسلام، اخلاق عامہ اور حکومت کے نظام پر کوئی اثر پڑتا ہو، جب کبھی کسی والی کےخلاف اس قسم کی شکایت ملی، فوراً معزول کر دیتے۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاصؓ کو بیت المال کا قرض نہ ادا کرنے کے الزام میں معزول کر دیا، ولید کو شراب نوشی کے جرم میں عہدہ سے برطرف کر کے حد جاری کی، سعد بن العاصؓ اور حضرت ابو موسی اشعریؓ کو رعایا کی شکایت پر عہدوں سے علیحدہ کر دیا۔ حج کے موقع پر تمام عمال طلب کئے جاتے اور اعلان عام ہوتا کہ جس شخص کو کسی عہدیدار کے خلاف کوئی شکایت ہو، اسے پیش کرے، پیش کردہ شکایتوں کا فوری تدارک فرماتے تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کے طرز حکمرانی اور نظریہ احتساب کے سلسلے میں مصر کے نامزد گورنر مالک اشتر کے نام آپ کے مشہور فرمان کے چند اقتباس ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں، گو مالک اشتر منصب سنبھالنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے، مگر ان کے نام یہ فرمان تاریخ کا حصہ بن گیا۔ لکھا:
”اے مالک! کاروبار حکومت کیلئے ایسے افراد کا چھان پھٹک کر انتخاب کرو، جو نیک گھرانوں کے چشم و چراغ، غیرت مند، آزمائے ہوئے اور اسلامی خدمات کی بجاآوری میں پیش پیش ہوں، پھر ان کو کشادہ دلی سے پوری پوری تنخواہیں دو تاکہ وہ زیردست کے مال پر نظر ڈالنے سے بے نیاز ہو جائیں“
”اللہ کے بندوں کے حقوق کو انصاف کے ساتھ پورا کرو، جو حکمران مخلوق پر ظلم ڈھاتا ہے تو خود خالق اس کا مخاطب بن جاتا ہے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ حکمران ہتھیار ڈال کر اللہ سے توبہ نہ کر لے حاجت مندوں کی درشت مزاجی اور انکے قوت بیان کی کمزوری کو تحمل سے برداشت کرو اور ان سے تنگ آ کر کہیں کج خلقی اور تکبر کا شکار نہ ہو جانا“۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ بڑے شد ومد کے ساتھ عمال کا احتساب کا فوری نوٹس لیتے تھے۔ والی اصطحر منذر بن جارود کے متعلق شکایت ملی کہ اپنا زیادہ وقت سیر وشکار میں صرف کرتے ہیں اور فرائض منصبی پر دھیان نہیں دیتے۔ انہیں لکھا:
”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے فرائض چھوڑ کر سیرو شکار پر نکل جاتے ہو اور کتوں سے کھیلتے ہو، اگر یہ صحیح ہے تو میں تم کو اس کا بدلہ دونگا، تمہارے گھر کا جاہل بھی تم سے بہتر ہے“ چنانچہ انہیں معزول کر دیا۔
ایک اور عامل کے متعلق شکایتیں ملیں تو اسے ایک طویل خط لکھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم عیش و تنعم کی زندگی بسر کرتے ہو، ہجو رات اور روغنیات کا زیادہ استعمال کرتے ہو۔ تمہارے دوستر خوان پر الوان نعمت ہوتے ہیں، منبر پر تم صد یقین کا وعظ کہتے ہو اور خلوت میں اہل لباحت کا عمل ہے۔ اگر یہ شکایتیں صحیح ہیں تو تم نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا اور مجھے تادیب پر مجبور کیا۔ تم بیواو¿ں اور یتیموں سے حاصل کئے ہوئے مال سے عیش و تنعم میں ڈوب کر خدا سے صالحین کے اجر کی توقع کس طرح رکھتے ہو؟ گناہوں سے توبہ کر کے اپنے نفس کی اصلاح کرو اور خدا کے حقوق ادا کرو“
عمال سے محاصل و خراج کی آمدنی کا نہایت سختی کے ساتھ حساب لیتے تھے۔ تاخیر ہو جاتی تو فہمائشی احکام جاری کرتے۔ ایک مرتبہ یزید بن قیس ارجی نے خراج بھیجنے میں تاخیر کی تو آپ نے لکھا:
”تم نے خراج کے بھیجنے میں تاخیر کی اس کا سبب تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں تم کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، ایسا کام ہرگز نہ کرو جس سے تمہارا اجر اور تمہارا جہاد برباد ہو جائے، خدا سے ڈرو اور اپنے نفس کو حرام مال سے پاک رکھو اور مجھ کو اس کا موقع نہ دو کہ تم سے مواخذہ کرنے پر مجبور ہو جاو¿ں“۔
اسلام کے تصور احتساب کے اس تذکرہ کے بعد ہم اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف اک لوٹ مچی ہوئی ہے۔ آزادی کیا ملی یار لوگوں نے اپنے آپ کو ہر پابندی اور ضابطے سے آزاد سمجھ لیا۔ جس کا جس قدر داو¿ چلا، چلایا۔ ایک دوسرے کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل بھی خوب تختہ مشق بنے۔ نتیجتاً معاشرہ میں معاشی انصاف ختم ہو گیا، امیر اور غریب کی خلیج و سیع ہوتی چلی گئی۔ ملکی وسائل، ہوس پرستوں کا پیٹ نہ بھر سکے تو غیر ملکی قرضوں کا رواج چل نکلا، جو لئے تو ملکی ترقی کے نام پر، لیکن سیدھے کرپٹ اہل اقتدار کی جیبوں میں چلے گئے۔ بات جب حد سے بڑھ گئی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اہل درد کی طرف سے احتجاج کی کمزور سی آواز اٹھی، لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟ پھر محض فیشن کے طور پر احتساب کی باتیں ہونے لگیں، کبھی کمیٹی بنی، کمیٹی کمشن بٹھایا گیا اور کبھی بیورو تخلیق مگر کرپشن کی آکاس بیل پھیلتی چلی گئی اور احتساب لفظی ہیر پھیر سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بڑھنا بھی کیسے؟ اس حمام میں سبھی ننگے تھے۔ سب ایک دوسرے کی کرتوتوں سے آگاہ ، کون کسی پر ہاتھ ڈالتا کہ ”ایں جرمیست کہ در شہر شمانیزی کند،،
زبان کی حد تک ہر کوئی کرپشن کی شکایت کرتا، احتساب کے گن گاتا، اس کا نفوذ بھی چاہتا، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ سب کو پکڑیں لیکن مجھے چھوڑ دیں۔ ایسے بھی جو بھی کارروائیاں ہوئیں، نیم دلانہ اور یکطرفہ تھیں۔
ہمارا یہ طرز عمل اصل میں اسلامی تعلیمات اور اقدار سے دوری کا نتیجہ ہے، ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن چلتے کسی اور ہی راستے پر ہیں اسلام نفش کشی سکھاتا ہے، ہم اسے پالتے ہیں، اسلام ایثار قربانی کا درس دیتا ہے، ہم ہیں کہ چھینا جھپٹی میں ثانی نہیں رکھتے، اسلام خدمت خلق کی تلقین کرتا ہے، ہم خلق خدا کی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسلام سادگی اور فروتنی کی بات کرتا ہے، ہم کبر و نخوت میں پاگل ہو جاتے ہیں، اسلام اخوت و بھائی چارے کا کہتا ہے اور ہم خونی رشتوں کی پہچان بھول بیٹھے ہیں۔ اسلام کڑے احتساب کا حکم دیتا ہے اور ہم ہیں کہ چور دروازوں کی تاش میں ثانی نہیں رکھتے، لیکن ایسے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اپنے اس طرز عمل سے ہم محض اپنی ذات کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آپ چھپا کس سے رہے ہیں؟ اللہ کی ذات تو علیم و خبیر ہے ، وہ تو آپ کے ارادوں تک سے آگاہ ہے۔ اصل میں ہم
خسارے میں ہیں ، دھوکہ یہ لگا ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسے سنوارنے کے چکر میں گمراہی کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ معاملہ محض اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ یہ تو اگلے جہاں بھی جاری رہے گا۔ ہم یہ بھی بھولجاتے ہیں کہ عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ لاکھ منصوبے بنا لیں اربوں جمع کر لیں، تدبیر الٹتے دیر نہیں لگتی اور سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور آخر میں نقطے کی بات کہ موثر احتساب وہ ہوتا ہے جو محتسب کی ذات سے شروع ہو، خود احتسابی اسلام کا زریں اصول ہے جس پر عمل کر کے ہم اب بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔