ہفتہ‘ 29 شوال المکرم 1439 ھ ‘ 14 جولائی 2018ء
بیٹے اور پوتی کوگرفتار نہیں ہونے دوں گی ، والدہ نواز شریف کی ویڈیو جاری
سابق وزیراعظم نواز شریف کی والدہ محترمہ شمیم بیگم کا یہ بیان مامتا کے بے بدل اور مقدس جذبے کا آئینہ دار ہے۔ یقینا یہ بیان پڑھ کئی رقیق القلب لوگوں پر رقت طاری ہوگئی ہوگی۔ ماں ، ماں ہی ہوتی ہے سابق وزیراعظم کی ہو یا وزیراعلیٰ کی یا عام آدمی کی ۔ انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ بھی ان کے ساتھ جیل جائیں گی انہیں یقین ہے کہ جس بیٹے نے ان کی گود میں پرورش پائی ہے وہ کرپٹ نہیں ہوسکتا۔محترمہ شمیم بیگم کے وڈیو بیان نے تحریک آزادی کے کئی باب وا کردئیے ۔
برصغیر کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے قائداعظم کی زیر قیادت اور کانگریس نے گاندھی کی قیادت میں آزادی کے لئے طویل جدوجہد کی ۔ قائداعظم اور کانگریسی لیڈروں کے طرز سیاست میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ کانگریسی انگریزوں کو زچ کرنے کےلئے قانونی شکنی اور تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن قائداعظم ،قانون اور نظم وضبط کے بڑے پابند تھے دلیل کی زبان میں بات کرتے تھے ۔
بالآخر ان کی اصول پسندی غالب آئی ہندو اور انگریز مطالبہ پاکستان تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ۔ لگ بھگ ایک صدی پہلے ، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنی اور اس کے اتحادیوں ترکی اور اٹلی کو شکست ہوئی تو برطانیہ اور فرانس نے خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے شروع کر دئیے جس پر ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے تحریک خلافت شروع کی۔
تحریک کے قائدین میں علی برادران پیش پیش تھے جنہیں انگریزوں نے حراست میں لے لیا ۔ ان کی گرفتاری پر مسلمانان ہند میں ، بالکل ایسی ہی کیفیت تھی جیسی ان دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی لندن سے واپسی پر ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب اور لاہور میں بالخصوص دیکھنے میں آئی ہے۔
علی برادران (مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی) کی والدہ زندہ اور کافی ضعیف تھیں ۔ ان دنوں موبائل اور ویڈیو وغیرہ کی سہولتیں نہیں تھیں۔ اخبار بھی اور خصوصاً ورنیکلر پریس ، سیاسی رہنماﺅں کے حکومت مخالف بیانات چھاپنے سے گریز کرتا تھا۔ تاہم کسی طرح علی برادران کی والدہ مرحومہ کے نام سے، جو بی اماں کے نام سے مشہور تھیں، منسوب یہ پیغام بڑا مشہور ہوا، جو انہوں نے جیل میں نظر بند اپنے فرزندان گرامی کو بھیجا تھا ....
بولیں اماں محمد علی کی
بیٹا جان خلافت پہ دے دو
اس شعر کا عام ہونا تھا کہ علی برادران کی گرفتاری کے خلاف راس کماری سے خیبر تک مسلمانوں میں بجلی کی سی تڑپ کی لہر دوڑ گئی۔
٭٭٭٭٭
والدین سے بچوں کی علیحدگی کی ٹرمپ پالیسی قابل مذمت ہے : ملالہ یوسف زئی
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کو ”ظالمانہ “ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ”زیر و ٹالرینس “ پالیسی کے تحت 2300بچوں کو ان کے والدین سے چھین کر علیحدہ کر دیا گیا ہے ۔
ملالہ ان دنوں لڑکیوں میںتعلیم کے فروغ کی مہم کے سلسلے میں جنوبی(لاطینی) امریکہ کے دورے پر ہیں۔ یہ وہ تارکین وطن ہیں جو روزگار کی تلاش میں کسی دستاویز یا ویزے کے بغیر میکسیکو سے امریکہ داخل ہو جاتے ہیں۔ امریکہ اور میکسیکو پڑوسی ملک ہیں اور سرحد بھی خاصی طویل ہے۔ دونوں علاقوں کے سرحدی علاقوں کے لوگ زبان، نسل اور رنگ کے اعتبار سے گہری مشابہت رکھتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ میکسیکن کی امریکہ آمد، ہرحکومت کے لئے مسئلہ بنی رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ سے پہلے کسی حکومت نے اس مسئلہ کو اس طریقے سے حل کرنے کی کوشش نہیںکی، جسے ملالہ نے ”ظالمانہ“ قرار دیا ہے۔ ملالہ کے لاطینی امریکہ اور بالخصوص برازیل کے دورے کو بڑی پبلسٹی اور اہمیت دی جا رہی ہے اور تو اور دُنیا کے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے ناول ایکمسٹ (جس کے اُردو سمیت دُنیا بھر کی بڑی بڑی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں) کے مصنف پاﺅلو کوئلو نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ملالہ کے اس مشن کا خیرمقدم کرتے ہوئے موصوفہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکرہے کہ ملالہ یوسف زئی نے صدر ٹرمپ کی خواتین پالیسی پر بھی تنقید کی ہے۔
٭٭٭٭٭
شیخ رشید کا ووٹ مانگنے کا نرالا انداز‘ نان بائیوں کے ساتھ مل کر روٹیاں لگاتے رہے۔
اس وقت ملک میں انتخابی مہم کی گہماگہمی ہے‘ گلی محلوں میں بھکاری کم اور ووٹ مانگنے والے زیادہ نظر آرہے ہیں۔انہیں عید کا چاند بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ بھی سال میں ایک بار نظر آہی جاتا ہے۔ شیخ رشید سیاست کی دنیا کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ خود کو عوامی لیڈر کہتے ہیں‘ اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ ووٹ مانگنے کیلئے نان بائیوں کے ساتھ روٹیاں لگانا ان کا اپنی نوعیت کا ایک اچھوتا اقدام ہے۔
آج کل ملک کے تمام سیاست دان اونٹ کی طرح پہاڑ کے نیچے آئے ہوئے ہیں‘انکی مجبوری ہے کہ وہ اس وقت ووٹ لینے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایک منجھا ہوا سیاست دان جب ووٹ کی خاطر تنور پر روٹی لگا سکتا ہے تو اس سے گھر کے دوسرے کام بھی لئے جا سکتے ہیںلہٰذا گھریلو خواتین کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
کاش ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ آجائے کہ روٹی لگانے اورجوتے پالش کرنے سے عوامی لیڈر نہیں بنا جاتا بلکہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے سے انکے دلوں میں جگہ بنائی جاتی ہے۔ لیکن کیا کیجئے‘ یہ سیاست دان عوام کے دلوں کے بجائے اسمبلیوں میں جگہ بنانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔