تین سال بعد خواجہ سعد رفیق کی اپیل پر فیصلہ
سپریم کورٹ نے سعد رفیق کی اپیل منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ لاہور کے حلقہ این اے 125میں دھاندلی نہیں ہوئی۔
این اے 125وہ حلقہ ہے جسے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ان چار حلقوں میں شامل کیا تھا جن کو وہ کھولنے پر زور دیتے رہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان چار حلقوں میں دھاندلی ثابت نہ ہو تو وہ 2013ءکے انتخابات میں دھاندلی کے موقف سے دستبردار ہو جائینگے، انکے مطالبے پر چاروں حلقے کھلے تاہم الیکشن ٹربیونل کی طرف سے خواجہ سعد رفیق کے مد مقابل امیدوار حامد خان کی انتخابی عذرداری پر خواجہ سعد رفیق کو انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کے باعث نااہل قرار دیدیا گیا۔ قانونی طور پر ٹربیونل 120 دن میں فیصلہ دینے کے پابند ہیں مگر ٹربیونلز کے فیصلے معینہ مدت کے دو، دو سال بعد بھی لٹکے رہتے ہیں۔مزید کسر اپیلٹ کورٹس میں نکل جاتی ہے۔ اب خواجہ سعد رفیق کی اپیل پر اس وقت فیصلہ آیا جب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں اور وہ نئے انتخابات کیلئے انتخابی میدان میں اتر چکے ہیں۔ وہ اس حلقے میں عمران خان کے مدمقابل ہیں اور اس فیصلے سے انہیں سیاسی فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے تاہم انصاف کی عملداری انصاف میں تاخیر سے ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ایسے انصاف پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ ٹربیونلز اور اپیلوں کے فیصلے بہرصورت بلاتاخیر آنے چاہئیں۔