پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں سیدخورشیدشاہ کا کالاباغ ڈیم پر بریفنگ لینے سے انکار اور پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی برائے پانی و بجلی کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے گزشتہ روز پی اے سی کے اجلاس میں سیکرٹری پانی و بجلی اور چیئرمین واپڈا کو کالاباغ ڈیم پر بریفنگ دینے سے روک دیا اور کہا کہ اس معاملہ میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ انکے بقول یہ ڈیم ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیگا۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے جس پر پی اے سی کے حکومتی ارکان نے ان سے کہا کہ وہ کالاباغ ڈیم پر ٹیکنیکل بریفنگ لے لیں تاہم سید خورشید شاہ نے بریفنگ لینے سے یکسر انکار کردیا اور کہا کہ حکومت کو پہلے ہی بہت گالیاں پڑ رہی ہیں‘ وہ مزید پینڈورا بکس نہ کھولے۔ اجلاس میں کالاباغ ڈیم پر بریفنگ کے معاملہ پر تحریک انصاف کے ارکان بھی خاموش بیٹھے رہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے بھی دیگر ارکان کی حمایت نہ ملنے پر کالاباغ ڈیم کیلئے بریفنگ کے مطالبہ پر زور نہیں دیا۔
اجلاس میں نیپرا‘ وزارت پانی و بجلی اور واپڈا کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال بجلی زیادہ مہنگی ہوئی ہے جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں فی یونٹ ایک روپیہ 23 پیسے کا اضافی سرچارج بھی عائد کیا گیا ہے اور بجلی کے شعبے کے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا بوجھ بھی صارفین پر ڈالا جارہا ہے۔ وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی نے پی اے سی کو بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 145 ملین مکعب فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں بڑے ڈیم نہ ہونے کے باعث ہم صرف 14 ملین مکعب فٹ پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ 30 ملین مکعب فٹ پانی ضائع ہوکر سمندر میں جا گرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو ہمیں ڈیم بنانا پڑینگے۔ اس حوالے سے انہوں نے دیامیر بھاشا اور کالاباغ ڈیم سمیت پانچ ڈیموں کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ تربیلا ڈیم کی صلاحیت بھی 36 فیصد کم ہوچکی ہے اس لئے ہمیں پانچ چھ سالوں میں دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر یقینی بنانی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ بھارت کے کشن گنگا ڈیم کے باعث نیلم جہلم میں 15 سے 20 فیصد پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ چیئرمین واپڈا کے بقول بڑے ڈیمز نہ ہونے کے باعث ملک میں سالانہ 25‘ ارب روپے کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
پاکستان دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں تعمیر و ترقی کے قومی منصوبوں پر اپنے اپنے مفادات کی سیاست کی جاتی ہے اور ایسے منصوبوں کی مخالفت کرکے ملکی ترقی کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں ترقی کا عمل روکنا اور قومی معیشت کو مستحکم نہ ہونے دینا یقیناً ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کا ایجنڈا ہے جس نے اس مقصد کیلئے اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کے ماتحت باقاعدہ فنڈز قائم کر رکھے ہیں جو یہاں ترقیاتی منصوبوں کی مخالف لابیز کو متحرک کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اسی تناظر میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ’’را‘‘ کے ہدف پر رہا ہے جس کی مخالفت کیلئے یہاں سرحدی گاندھی باچاخان کے پیروکاروں اور نام نہاد قوم پرستوں کی سرپرستی کرکے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم ملک کا وہ مفید‘ کارآمد اور قابل عمل منصوبہ ہے جس کے اپریشنل ہونے سے پاکستان کو آبی دہشت گردی کا شکار کرنے کی بھارتی سازشیں بھی ناکام بنائی جا سکتی ہیں‘ اسکے پونڈز میں پانی ذخیرہ کرکے خشک سالی کے موسم میں اس سے فصلوں کو سیراب بھی کیا جا سکتا ہے اور اس سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کرکے ملک میں نحوست کے سائے کی طرح پھیلتے ہوئے توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ اس ڈیم کی تعمیر سے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں بھی کم کی جا سکتی ہیں۔ اگر ملک کی ترقی میں انتہائی اہم کردار کے حامل اس منصوبے کی مخالفت کی جاتی ہے‘ اسے ڈائنامائیٹ سے اڑانے اور اسکی تعمیر کیلئے ’’ہماری لاشوں‘‘ سے گزر کر جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو یہ محض سیاست نہیں بلکہ ملکی استحکام کیخلاف گھنائونی سازش ہے جو بھارت نے اسی ذہنیت کے ساتھ تیار کی ہے جس ذہنیت کے تحت آج بھارت کی جانب سے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالے ہمارے سیاست دان اور دوسرے متعلقہ حلقے فی الحقیقت ملکی مفادات سے کھیل رہے ہیں جن کے پاس کالاباغ ڈیم کے مبینہ مضمرات کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ ان کا مطمعٔ نظر صرف اس ڈیم کی تعمیر رکوانا ہے جس میں فی الوقت وہ کامیاب بھی ہوچکے ہیں اور انہیں اس پر احساس زیاں بھی نہیں ہوتا جبکہ ہمارا مکار دشمن اپنی یہ سازش کامیاب ہونے پر خوشی سے بغلیں بجاتا نظر آتا ہے۔ ہمارا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کو مفاداتی سیاست کی نذر کرنے کے بعد ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے آج تک کسی دوسرے بڑے ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی پیش رفت نہیں کی اور اس طرح سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں پر پہلے پاکستان کیلئے ڈیمز تعمیر کرنے کے حاصل ہونیوالے مواقع ضائع کئے جاتے رہے ہیں‘ نتیجتاً بھارت کو ان دریائوں پر بھی چھوٹے بڑے ڈیمز کے انبار لگانے کا جواز ملتا رہا جس نے پاکستان آنیوالے دریائوں کا رخ بھی اپنی جانب موڑنے کی سازش کی اور آج مودی سرکار ہمیں پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کرنے کی دھمکی دیتی بھی نظرآتی ہے۔ بھارت کے پاس تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا یہ بہترین ہتھیار ہے جس کے ہمارے خلاف استعمال کیلئے وہ جارحانہ رویہ رکھتا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے برعکس ڈیمز تعمیر کرکے وہ پاکستان کے دادرسی کیلئے عالمی بنک پہنچنے پر سندھ طاس معاہدے کے ضامن اس عالمی ادارے کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔
پانی کا تنازعہ بھی یقیناً کشمیر ہی کی طرح بھارت کے ساتھ ہمارا بنیادی تنازعہ ہے جس کے مذاکرات کے ذریعے حل سے وہ ہمیشہ کتراتا ہے کیونکہ ایسے تنازعات کے ذریعے پاکستان کو اقتصادی‘ معاشی اور دفاعی طور پر کمزور کرنا تو اسکے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم کا ہوم ورک ہونے اور اس پر ابتدائی کام کا آغاز ہونے کے باوجود 70ء کی دہائی سے آج تک اسکی تعمیر ممکن نہیں ہوسکی اور ہر حکمران نے اسے قومی اتفاق رائے سے مشروط کیا ہے تو یہی بھارت کی بڑی کامیابی ہے جو اس نے یہاں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حاصل کی ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم ملک کے کسی علاقے کیلئے نقصان دہ ہوتا تو ہر چیئرمین واپڈا کی جانب سے اس منصوبے کی وکالت کیوں کی جاتی۔ سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک تو‘ جو خود بھی نوشہرہ کے رہنے والے ہیں‘ کالاباغ ڈیم کے مخالفین کو چیلنج کرتے رہے ہیں کہ وہ انکے ساتھ مناظرہ کرلیں مگر کالاباغ ڈیم کے مخالفین نے ان کا چیلنج قبول کرنے کے بجائے محض مخالفت برائے مخالفت والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ اگر کالاباغ ڈیم سے فی الواقع نوشہرہ کے ڈوبنے کا خطرہ ہوتا تو انجینئر شمس الملک ہی اسکے سب سے بڑے مخالف ہوتے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ 2011ء کے سیلاب میں نوشہرہ ڈوبا تو اس وقت کی حکمران پیپلزپارٹی کے قائدین نے خود اعتراف کیا کہ آج کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو نوشہرہ کبھی نہ ڈوبتا۔ اسکے باوجود سندھی قوم پرست ہونے کے دعوے دار پیپلزپارٹی کے قائدین آج بھی کالاباغ ڈیم کی مخالفت پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ سابق چیئرمین واپڈا ظفرمحمود نے گزشتہ سال کے آغاز میں کالاباغ ڈیم کی افادیت اجاگر کرنے کیلئے قومی اخبارات میں اپنے مضامین کی سیریز شروع کیں تو قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سیدخورشید شاہ ہی انہیں اور حکومت کو دھمکیاں دیتے نظر آئے چنانچہ بلیک میلنگ کی اس سیاست میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ظفرمحمود کو قربانی کا بکرا بنا کر انہیں چیئرمین واپڈا کے منصب سے فارغ کردیا۔
اگر آج موجودہ چیئرمین واپڈا اور پانی و بجلی کے وفاقی سیکرٹری بھی کالاباغ ڈیم کی افادیت کے قائل ہیں اور اس پر قومی سیاسی قائدین کو بریفنگ دے کر قائل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بریفنگ سے روکنا اور کالاباغ ڈیم کا لفظ تک سننا بھی گوارا نہ کرنا قومی ترقی کا راستہ روکنے کی گھنائونی سازش سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ نئے اور مستحکم پاکستان کے نعرے لگانے والی پی ٹی آئی کے ارکان بھی پی اے سی کے اجلاس میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کا سن کر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا پڑی جو مفاداتی سیاست کی کمزوریوں کا بین ثبوت ہے۔
اگر پی اے سی کے اجلاس میں سیکرٹری واپڈا کی جانب سے واضح طور پر یہ باور کرایا گیا ہے کہ بھارتی کشن گنگا ڈیم کے باعث نیلم جہلم میں پاکستان کا پانی 20 فیصد تک کم ہو سکتا ہے تو پاکستان پر آبی دہشت گردی کی اس بھارتی سازش کا توڑ نہ کرنا اسکے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کرنے کے مترادف ہے۔ کیا قومی سیاسی قائدین کو اس پر قوم کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان بھارتی سازشوں کے توڑ کیلئے کالاباغ ڈیم ہی بہترین منصوبہ ہے جس کی وہ مخالفت کررہے ہیں۔ یقیناً اس حوالے سے حکمرانوں کو بھی مصلحت کیشی کا لبادہ اتار پھینکنا چاہیے اور قومی ترقی و استحکام کے ضامن کسی بھی منصوبے پر ہرگز مفاہمت نہیں کرنی چاہیے۔ آج ملک میں پانی کی قلت کا مسئلہ بھی شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے اور آبی ماہرین وارننگ دے رہے ہیں کہ آئندہ دس بارہ سال تک ملک پانی کی کمیابی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں تو پانی ضائع ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے جس کیلئے بڑے ڈیمز کی تعمیر ازحد ضروری ہے تاکہ انکے پونڈز میں پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اسی تناظر میں واٹر پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ پانی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فاضل چیف جسٹس نے اس سلسلہ میں حکومت سے وضاحت بھی طلب کی ہے چنانچہ قومی مفادات کا یہی تقاضا ہے کہ ہمارے لئے دشمن کے پیدا کردہ پانی کے مسائل کی جانب حکومت اور متعلقہ ادارے فوری توجہ دیں اور کالاباغ ڈیم کے ساتھ ساتھ دوسرے ڈیمز کی تعمیر کا بھی جنگی بنیادوں پر آغاز کردیا جائے۔ بصورت دیگر ہم اپنے مکار دشمن کو خود ہی موقع فراہم کرینگے کہ وہ ہمیں تر نوالہ سمجھ کر آسانی سے ہڑپ کر جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024