200 سال ہم انگریز کے غلام رہے۔ اس دوران اس نے ہمارے استحصال کی ہر وہ صورت اختیار کی جو وہ کر سکتا تھا۔ ہمارے مشاہیر کو توپوں سے اڑایا گیا۔ انکے سرکاٹے گئے۔ انکی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ ان کو ملک بدر کیا گیا۔
اور ہر وہ شخص جس میں آزادی کی تڑپ نظر آئی اس کو مار دیا گیا، جلا وطن کر دیا گیا یا قید کر لیا گیا۔ پھر ایک شخص اور اسکے ہمراہی منصہ شہود پر نمودار ہوئے جن کی جدوجہد کے نتیجے میں اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔ آدمی کیچڑ میں گر جائے لت پت ہو جائے تو جب وہ اس کیچڑ سے نکلتا ہے۔ منہ ہاتھ دھوتا ہے۔ غلاظت کو صاف کرتا ہے۔ اور آئندہ کیلئے اس سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے۔
غلامی ایک غلاظت تھی جس میں ہم گر گئے تھے جس میں ہم لت پت ہو گئے تھے۔ اور اس غلامی کی کیچڑ انگریزی زبان تھی جس کے ذریعے ہمارے تشخص کو ہماری شناخت کو ہم میں آزادی کے جذبے کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے دل میں احساس کمتری کا بیج ڈالا گیا اور اس کو قائم رکھنے کیلئے کئی طرح کی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ غلاموں کی ایک فوج تیار کی گئی جو انگریزوں کو بالاتر اور انگریزی کو ایک برتر زبان کی حیثیت سے باور کروانے میں جتے رہتے ہیں۔ بھلا او لیول اور اے لیول غلاموں کی فوج تیار کرنے اور انگریزوں کو ہم سے برتر سمجھنے کے سوا اورکیا ہے۔ جب انگریز یہاں حاکم تھا، تو اس نے جو نصاب تعلیم ہمارے لئے مرتب کیا تھا وہ اس سے بہت ہی کم تر معیار کا تھا جو انکے ہاں رائج تھا کہ مقصد صرف کلرک پیدا کرنا اور انکی مشینری کے کل پرزے تیار کرنا تھا۔ بھلا جب ہم غلام تھے تو اس نے ہمارے لئے ایسا نصاب تیار کیا جو ہمیں سر اٹھانے سے پہلے ہی سر جھکا دینے پر مجبور کر دے تو آج جب ہم آزاد ہیں وہ ایسا کیوں چاہے گا کہ ہم اپنے آپ کو واقعی آزاد سمجھ کر آزادی کی روش پر چل نکلیں تو کوچہ کوچہ پھیلے ہوئے مشنری سکول اور یہ او لیول اور اے لیول کیا ہمیں آزادی کا سبق پڑھانے کیلئے ہیں؟ ہمیں آزادی کی روش پر چلنا سکھانے کیلئے ہیں۔ اور ایک بات جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا وہ یہ کہ یہ ادارے اور یہ نظام ان کے ذہنی غلام اور انکے اداروں کیلئے تیار شدہ مال انتہائی سستے داموں فراہم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ملک ہمارا، پیسہ ہمارا، ادارے ہمارے ہم 20 سال میں ایک طالب علم کسی قابل بناتے ہیں اور وہ ہماری نسلوں پر احسان جتاتے ہوئے اس کو اپنے ہاں نوکری دے کر، کاروبار کا لالچ دیکر کھپا دیتے ہیں۔ اور ہمارے لوگ کہتے ہیں اس ملک میں ہے ہی کیا؟ اس ملک میں ملازمتیں ہیں، کاروبار نہ ترقی کرنے کا کوئی راستہ ارے جب ہمارا جوہر قابل، ہمارا نوجوان طبقہ ہی اس ملک میں نہیں رہے گا تو ہم ترقی کیسے کرینگے؟ آگے کیسے بڑھیں گے؟
تو انگریز کی غلامی ایک دلدل تھی اور انگریزی وہ کیچڑ جس سے ہمیں غلیظ رکھنا مقصود تھا کس قدر حیرانی کی بات ہے ہم ایک بار پھر اس دلدل میں دھنسنے کو بے چین ہیں۔ اس کیچڑ کو اٹھا اٹھا کر اپنے منہ میں بھر رہے ہیں۔ اپنے اوپر مل رہے ہیں، اس میں لت پت ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں
اور پھر حیران ہوتے ہیں ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے، ہم خوشحال کیوں نہیں ہو رہے؟
ہم پسماندہ سے پسماندہ تر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟
ارے اس کیچڑ کو کیچڑ سمجھو اس کو غلاظت سمجھو اس سے نفرت کرو اس سے نجات پانے کی جدوجہد کرو تم آزاد ہو جاؤ گے، تم ترقی کرو گے تم خوشحال ہو جاؤ گے۔ تمہیں گھر سے بے گھر نہیں ہونا پڑے گا۔ تم دنیا میں عزت کماؤ گے۔ تم ایک باوقار اور خود مختار ملک کے باشندے کے طور پر جانے جاؤ گے۔ گر یہ سب نہیں تو ذلیل تو ہم ہیں بے وقار تو ہم ہیں دربدر بھٹکتے ہوئے تو ہم ہیں بھکاری تو ہم ہیں یار سب کچھ چھوڑو یہ بتاؤ 4 ماہ میں تھر میں 400 کے لگ بھگ بچے بھوک اور بیماری سے مرگئے ہم ان کو بچا بھی نہ سکے اس سے زیادہ پسماندگی، بے بسی اور لا چاری کیا ہوگی؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024