سمجھ تو آتا ہے مگر شاید ہمیں بالکل ہی کوئی سوجھ بوجھ نہ ہو۔ ہم جو ٹھہرے عوام اور ’’رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ یہ کہ اپنی حکومت و حکمرانی کے بھید بادشاہوں کو ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ہمیں شبہ تھا کہ میڈیا کی چوکسی نے اس پرانے اصول شاہی و شہنشاہی کو غلط ثابت کر دیا ہے مگر ہمارا یہ شبہ بھی قائم نہیں رہ سکا میاں محمد نواز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’کاربن ٹیکس حکومت کی بڑی غلطی تھی اور یہ عوام کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں تھا۔ وہ ٹیکس سوچ سمجھ کر لگانا چاہئے تھا‘‘ جس بجٹ میں وہ ٹیکس لگایا گیا تھا اس کی تیاری میں میاں صاحب کی اپنی جماعت کے ان کے اپنے نامزد کئے ماہرین بھی شامل تھے۔ سینیٹر اسحاق ڈار صاحب ان کی پارٹی کے ہی نہیں‘ ان کے گھر کے بندے ہیں ان کی مہارت کی سطح بہت ہی بلند اور عالمی بتائی جاتی ہے۔ اس بجٹ کی تیاری میں وہ بذاتِ خود شامل بلکہ فعال رہے تھے۔ ہم نے اپنے کانوں سے جو اب ہمیں کافی گنہگار دکھائی دینے لگے ہیں انہیں فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ان کی اور ان کی پارٹی کی بہت سی ترامیم بجٹ میں شامل کر لی گئی تھیں یعنی ان کے مشورہ اور مطالبہ پر اس بجٹ میں جو قوم کی منتخب اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا ان کی کانٹ چھانٹ بھی شامل تھی تو کیا ہم مان لیں کہ کاربن ٹیکس ان سے چوری چھپے شامل کر دیا گیا تھا اس بجٹ میں جو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اگر حکومت نے کسی خفیہ چال ڈھال کے ذریعے وہ ٹیکس بجٹ میں شامل کر دیا تھا تو پارلیمنٹ میں کسی بھی سطح پر انہیں اس کا پتہ کیوں نہیں چل سکا تھا اور ان کی یعنی ان کے میاں صاحب کی مسلم لیگ کے کسی بھی رکن قومی اسمبلی نے اس پر کوئی چھوٹا موٹا بھی اعتراض کیوں نہیں کیا تھا؟ ہمیں میاں صاحب سے اس بارے میں چار پانچ سو فیصد اتفاق ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں تھا مگر پلے یہ نہیں پڑ رہا کہ جب ان کے عوام کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا جا رہا تھا تو ان کے نہ ماہرین کو پتہ کیوں نہیں چل سکا تھا اور نہ ہی ان کی پارٹی کے کسی رکن پارلیمنٹ کو‘ کہ یہ تو ان کے عوام کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ان سے اور ان کی پارٹی سے تو عوام کی کیا ڈیوڈ ملی بینڈ تک کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور اس پارٹی میں کوئی ایک بھی بندہ بشر نہ ہوجسے عوام کے ساتھ برے سلوک کی کوئی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو؟ کیا مان لیں ہم؟ میاں صاحب قبلہ نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ حکومت کی بڑی غلطی تھی مگر جب حکومت وہ غلطی کر رہی تھی تب آپ نے یا آپ کی پارٹی کے کسی ماہر نے یا کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے اسے
بتایا کیوں نہیں تھا اس وقت؟ وہ کونسی کوئی بیگانی پارٹی کی حکومت ہے آپ کے برادر عزیز از جمہوریت کی ہی تو ہے جس نے وہ غلطی کی تھی آپ کی اس خاموش تائید کو ہم عوام کیا سمجھیں؟ غلطی کی تائید؟ غلطی حکومت کی عذاب عوام کیلئے اور تائید آپ کی؟ دونوں معاملوں میں؟ مگر کیوں؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا امتحان لینے کے لئے کی تھی آپ نے وہ تائید یا اپنے عوام کے صبر کا؟ سمجھ آتا ہے سب کچھ مگر کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم جو ٹھہرے عوام اور خسرواں یعنی بادشاہوں یا حکمرانوں میں تینوں برادران شامل ہیں اوپر سب سے چھوٹے کی حکمرانی ہے اور اس کی جمہوریت کے زیر سایہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر بڑے بھائیوں کی حکمرانی ہے اور اپنی حکمرانی کے بھید حکمرانوں کو ہی معلوم ہوتے ہیں جب عدالت عالیہ نے اپنی آزادی اور خودمختاری کے ثبوت کے طور پر اس کاربن ٹیکس کو عوام کے بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا تو ملک کے عوام کی خوشیوں میں مسلم لیگ ن بھی شامل تھی بلکہ ہم نے تو یہ بھی پڑھا اور سنا تھا کہ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے جھگڑا صاحب نے کوئی درخواست بھی دائر کی ہوئی تھی۔ عدالت عالیہ کی آزادی کے احترام میں صدر مکرم نے اپنے وزیراعظم کی سفارش پر وہ آرڈیننس جاری اور نافذ فرما دیا جس کے عذاب میں قوم یا حکمرانوں کے عوام مبتلا ہیں اور گلی گلی چیخ و پکار کر رہے ہیں اور اس احتجاج میں بھی اہل نون کی حامی تنظیمیں شامل بتائی جا رہی ہیں۔ جب حکومت کاربن ٹیکس لگا رہی تھی تو میاں صاحبان اور ان کے ماہرین و ارکان اس کے ساتھ تھے جب عدالت عالیہ نے اس ٹیکس کو کالعدم قرار دیدیا تھا تو وہ سب عدالت عالیہ کے ساتھ تھے اور اب زیر عذاب عوام کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں؟ کہ ’’رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ مگر وہ رموز ہیں کیا؟ ہم تو ہر گز ہر گز جمہوریت اور اس کے استحکام کے دشمنوں کی اس رائے اور پروپیگنڈہ سے اتفاق نہیں کر سکتے جو اس سارے عذاب کو ’’ملی بینڈ بھگت‘‘ قرار دے رہے ہیں پھر بھی یہ درخواست گزارنا ہم عوام کا کوئی بنیادی نہیں بھی تو فریادی حق حقوق تو بنتا ہی ہے کہ یہ سارا حسنِ اتفاقات ہے کیا؟ اگر یہ مان بھی لیں اور ہم عوام پر اسے ماننا اور اس سے اتفاق کرنا لازم ہے کہ یہ سب عذاب جاوداں وردی شاہ کا ورثہ ہے تو کیا اس ورثہ کے عذاب کو جاودانی بنانے والے اس وردی شاہ کی عطا نہیں ہوتے؟ اس این آر او کی دین نہیں ہیں جس کے بنانے بنوانے میں بھی ملی بینڈ بھگت شامل تھی؟ اگر یہ سب عذاب اسی کے دئیے ہوئے ہیں تو برادر شاہی اور ان کی جمہوریت نے کیا دیا ہے اس ملک اور اس کے عوام کو؟ کیا ان کے فرائض میں لینا ہی شامل ہے؟ دنیا صرف عذاب ہی ہے ان کے ذمے؟ کوئی ہے ایسی اعلیٰ مثال جو ہم دنیا کو باوردی اور بے وردی حکمرانی کے فرق کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں؟ حسنِ اتفاقات کے علاوہ؟
بتایا کیوں نہیں تھا اس وقت؟ وہ کونسی کوئی بیگانی پارٹی کی حکومت ہے آپ کے برادر عزیز از جمہوریت کی ہی تو ہے جس نے وہ غلطی کی تھی آپ کی اس خاموش تائید کو ہم عوام کیا سمجھیں؟ غلطی کی تائید؟ غلطی حکومت کی عذاب عوام کیلئے اور تائید آپ کی؟ دونوں معاملوں میں؟ مگر کیوں؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا امتحان لینے کے لئے کی تھی آپ نے وہ تائید یا اپنے عوام کے صبر کا؟ سمجھ آتا ہے سب کچھ مگر کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم جو ٹھہرے عوام اور خسرواں یعنی بادشاہوں یا حکمرانوں میں تینوں برادران شامل ہیں اوپر سب سے چھوٹے کی حکمرانی ہے اور اس کی جمہوریت کے زیر سایہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر بڑے بھائیوں کی حکمرانی ہے اور اپنی حکمرانی کے بھید حکمرانوں کو ہی معلوم ہوتے ہیں جب عدالت عالیہ نے اپنی آزادی اور خودمختاری کے ثبوت کے طور پر اس کاربن ٹیکس کو عوام کے بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا تو ملک کے عوام کی خوشیوں میں مسلم لیگ ن بھی شامل تھی بلکہ ہم نے تو یہ بھی پڑھا اور سنا تھا کہ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے جھگڑا صاحب نے کوئی درخواست بھی دائر کی ہوئی تھی۔ عدالت عالیہ کی آزادی کے احترام میں صدر مکرم نے اپنے وزیراعظم کی سفارش پر وہ آرڈیننس جاری اور نافذ فرما دیا جس کے عذاب میں قوم یا حکمرانوں کے عوام مبتلا ہیں اور گلی گلی چیخ و پکار کر رہے ہیں اور اس احتجاج میں بھی اہل نون کی حامی تنظیمیں شامل بتائی جا رہی ہیں۔ جب حکومت کاربن ٹیکس لگا رہی تھی تو میاں صاحبان اور ان کے ماہرین و ارکان اس کے ساتھ تھے جب عدالت عالیہ نے اس ٹیکس کو کالعدم قرار دیدیا تھا تو وہ سب عدالت عالیہ کے ساتھ تھے اور اب زیر عذاب عوام کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں؟ کہ ’’رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ مگر وہ رموز ہیں کیا؟ ہم تو ہر گز ہر گز جمہوریت اور اس کے استحکام کے دشمنوں کی اس رائے اور پروپیگنڈہ سے اتفاق نہیں کر سکتے جو اس سارے عذاب کو ’’ملی بینڈ بھگت‘‘ قرار دے رہے ہیں پھر بھی یہ درخواست گزارنا ہم عوام کا کوئی بنیادی نہیں بھی تو فریادی حق حقوق تو بنتا ہی ہے کہ یہ سارا حسنِ اتفاقات ہے کیا؟ اگر یہ مان بھی لیں اور ہم عوام پر اسے ماننا اور اس سے اتفاق کرنا لازم ہے کہ یہ سب عذاب جاوداں وردی شاہ کا ورثہ ہے تو کیا اس ورثہ کے عذاب کو جاودانی بنانے والے اس وردی شاہ کی عطا نہیں ہوتے؟ اس این آر او کی دین نہیں ہیں جس کے بنانے بنوانے میں بھی ملی بینڈ بھگت شامل تھی؟ اگر یہ سب عذاب اسی کے دئیے ہوئے ہیں تو برادر شاہی اور ان کی جمہوریت نے کیا دیا ہے اس ملک اور اس کے عوام کو؟ کیا ان کے فرائض میں لینا ہی شامل ہے؟ دنیا صرف عذاب ہی ہے ان کے ذمے؟ کوئی ہے ایسی اعلیٰ مثال جو ہم دنیا کو باوردی اور بے وردی حکمرانی کے فرق کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں؟ حسنِ اتفاقات کے علاوہ؟