کتنا شوق ہے انہیں شہنشاہ معظم کہلاتے رہنے کا۔لندن کے مہنگے بازار میں شاہی پروٹوکول کے ساتھ بی ایم ڈبلیو گاڑی میں مٹرگشت کرتے ہوئے پاکستانی باشندوں کو دیکھ کر ان کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی ’’میری اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کے بعد میرے ملک کے عوام کتنے مشکل حالات میں ہیں، یقینا مجھے اور میرے جرنیلی اقتدار کو یاد کررہے ہوں گے، رو رہے ہوں گے کہ میرے جاتے ہی ان کی کیا حالت بن گئی ہے، اس لئے عوام خواہش کریں تو ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے میں ان کی خاطر دوبارہ شہنشاہ معظم بن سکتا ہوں…ع میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں۔‘‘
بھئی آپ سے کس نے کہہ دیا کہ عوام آپ کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ انہیں اہل جمہور نے ضرور پٹخنیاں دے رکھی ہیں۔ مہنگائی کے عفریت کے آگے ان کی ہڈیاں نوچنے کیلئے ڈالا ہوا ہے،لوڈ شیڈنگ سے انہیں ’’نہ جی رہے ہیں، نہ مر رہے ہیں‘‘ کے مقام پر پہنچایا ہوا ہے۔ بے شک آپ کی اختیار کردہ ننگِ وطن پالیسیوں کا دامن بھی انہوں نے تھام رکھاہے۔ امریکہ کے ’’ڈومور‘‘ کی تعظیم و تکریم آپ سے بھی بڑھ کر کر رہے ہیں، اپنے شہریوں کا خون ناحق بہانے اور انہیں امریکی ڈرون حملوں کی زد میں لانے کے معاملہ میں وہ آپ سے بھی زیادہ تیز ہیں۔ عوام کو احساس ہی نہیں، اذیت بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں لائی گئی سلطانی ٔ جمہور ان کے گلے ہی کاٹ رہی ہے۔ وہ بہت عاجز ہیں، نالاں ہیں، فریاد کرتے تھک چکے ہیں، داد رسی کی نوبت نہیں آ رہی۔ اپنے حسنِ انتخاب پر وہ کفِ افسوس بھی مل رہے ہوں گے مگر شاہی شوق پالنے والی سرکار، آپ سے کس نے کہہ دیا کہ عوام اپنے منتخب کردہ حکمرانوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں تو آپ کو یاد کر رہے ہیں، آپ کو واپس لانے اور جرنیلی آمریت کے پھر سے جلوے دکھانے کی تمنا کر رہے ہیں۔
جناب ہر گز نہیں، آپ خاطر جمع رکھئے۔ انہیں آپ کے اقتدار میں آنے کی نہ پہلے خوشی تھی نہ آپ کیلئے وہ کبھی رطب اللسان رہے۔ آپ تو عوام کی نمائندہ منتخب حکومت کا گلا کاٹ کر بندوق کے زور پر اقتدار کے ایوانوں میں وارد ہوئے تھے اور پھر آپ نے عوام کی ہی نہیں، اسلامی دنیا کی اس پہلی ایٹمی قوت وطنِ عزیز کی اقوام عالم میں مٹی پلید کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر اسلام دشمنوں کے امام امریکہ، اس کے پالتو اسرائیل اور چیلے بھارت تک کو اپنی غلامی کا مکمل احساس دلا دیا اپنے شہریوں اور ایک نیک نام دینی مدرسے کے معصوم بچوں بچیوں کا خون ناحق بہانے میں ذرا بھر جھجک محسوس نہ کی۔ آج بھی آپ اپنے اس شرمناک اور ننگ انسانیت اقدام کو درست قرار دیتے ہیں کہ آپ اس کے عوض ڈالر کھرے کر چکے ہیں جن سے آپ کو چک شہزاد میں عالیشان محل تعمیر کرنے اور اب پورے تکبر و نخوت اور نمود و نمائش کے ساتھ دنیا بھر میںسیر سپاٹے کرنے کی سہولت ملی ہے۔آپ اپنے ہاتھوں عوام کے دلوں پر لگنے والے زخموں کا شمار تو کریں،محسوس تو کریں عوام آپ کو کس حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ آپ پروٹوکول سے باہر نکل کر ان کے سامنے آئیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ آپ کو اقتدار میں واپس لانے کیلئے یاد کرتے ہیں یا آپ کے ساتھ آپ کی باقیات کو بھی انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔
عوام ہی کیا ، اپنے ان وفادار سابقہ حلیفوں کے تیور دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیں جو آپ کے باوردی اقتدار کے دوران اپنے مفادات کیلئے آپ کے ارد گرد مکھیوں کی طرح بھنبھنایا کرتے تھے اور آپ کی درازئی عمر کی دعائوں کے ساتھ ساتھ مزید دس بار آپ کو وردی سمیت منتخب کرانے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ کیا وہ اب بھی اپنی سیاست کے ساتھ آپ کا نام منسلک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ تو اب آپ کے نام سے یوں بدکتے ہیں جیسے انہیں کسی کرنٹ نے جھٹکا لگا دیا ہو۔ وہ اپنی مستقبل کی سیاست میں آپ کا نام استعمال کرنا تو کجا، آپ کے سائے سے بھی دور رہنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں جنرل مشرف صاحب، آپ کے پالتوئوں، وفاداروں میں آپ کیلئے وفا نہیں رہی تو جو عوام آپ سے زخم کھائے بیٹھے ہیں۔ آپ کی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں وہ بھلا آپ کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھانے کیلئے کیوں فکر مند ہوں گے۔ آپ بس اب اپنی زندگی کیلئے فکر مند رہا کریں اور عوام کے قریب آنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے آمریت دفن کی ہے تو بھلا آمر کو کیسے برداشت کریں گے۔
بھئی آپ سے کس نے کہہ دیا کہ عوام آپ کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ انہیں اہل جمہور نے ضرور پٹخنیاں دے رکھی ہیں۔ مہنگائی کے عفریت کے آگے ان کی ہڈیاں نوچنے کیلئے ڈالا ہوا ہے،لوڈ شیڈنگ سے انہیں ’’نہ جی رہے ہیں، نہ مر رہے ہیں‘‘ کے مقام پر پہنچایا ہوا ہے۔ بے شک آپ کی اختیار کردہ ننگِ وطن پالیسیوں کا دامن بھی انہوں نے تھام رکھاہے۔ امریکہ کے ’’ڈومور‘‘ کی تعظیم و تکریم آپ سے بھی بڑھ کر کر رہے ہیں، اپنے شہریوں کا خون ناحق بہانے اور انہیں امریکی ڈرون حملوں کی زد میں لانے کے معاملہ میں وہ آپ سے بھی زیادہ تیز ہیں۔ عوام کو احساس ہی نہیں، اذیت بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں لائی گئی سلطانی ٔ جمہور ان کے گلے ہی کاٹ رہی ہے۔ وہ بہت عاجز ہیں، نالاں ہیں، فریاد کرتے تھک چکے ہیں، داد رسی کی نوبت نہیں آ رہی۔ اپنے حسنِ انتخاب پر وہ کفِ افسوس بھی مل رہے ہوں گے مگر شاہی شوق پالنے والی سرکار، آپ سے کس نے کہہ دیا کہ عوام اپنے منتخب کردہ حکمرانوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں تو آپ کو یاد کر رہے ہیں، آپ کو واپس لانے اور جرنیلی آمریت کے پھر سے جلوے دکھانے کی تمنا کر رہے ہیں۔
جناب ہر گز نہیں، آپ خاطر جمع رکھئے۔ انہیں آپ کے اقتدار میں آنے کی نہ پہلے خوشی تھی نہ آپ کیلئے وہ کبھی رطب اللسان رہے۔ آپ تو عوام کی نمائندہ منتخب حکومت کا گلا کاٹ کر بندوق کے زور پر اقتدار کے ایوانوں میں وارد ہوئے تھے اور پھر آپ نے عوام کی ہی نہیں، اسلامی دنیا کی اس پہلی ایٹمی قوت وطنِ عزیز کی اقوام عالم میں مٹی پلید کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر اسلام دشمنوں کے امام امریکہ، اس کے پالتو اسرائیل اور چیلے بھارت تک کو اپنی غلامی کا مکمل احساس دلا دیا اپنے شہریوں اور ایک نیک نام دینی مدرسے کے معصوم بچوں بچیوں کا خون ناحق بہانے میں ذرا بھر جھجک محسوس نہ کی۔ آج بھی آپ اپنے اس شرمناک اور ننگ انسانیت اقدام کو درست قرار دیتے ہیں کہ آپ اس کے عوض ڈالر کھرے کر چکے ہیں جن سے آپ کو چک شہزاد میں عالیشان محل تعمیر کرنے اور اب پورے تکبر و نخوت اور نمود و نمائش کے ساتھ دنیا بھر میںسیر سپاٹے کرنے کی سہولت ملی ہے۔آپ اپنے ہاتھوں عوام کے دلوں پر لگنے والے زخموں کا شمار تو کریں،محسوس تو کریں عوام آپ کو کس حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ آپ پروٹوکول سے باہر نکل کر ان کے سامنے آئیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ آپ کو اقتدار میں واپس لانے کیلئے یاد کرتے ہیں یا آپ کے ساتھ آپ کی باقیات کو بھی انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔
عوام ہی کیا ، اپنے ان وفادار سابقہ حلیفوں کے تیور دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیں جو آپ کے باوردی اقتدار کے دوران اپنے مفادات کیلئے آپ کے ارد گرد مکھیوں کی طرح بھنبھنایا کرتے تھے اور آپ کی درازئی عمر کی دعائوں کے ساتھ ساتھ مزید دس بار آپ کو وردی سمیت منتخب کرانے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ کیا وہ اب بھی اپنی سیاست کے ساتھ آپ کا نام منسلک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ تو اب آپ کے نام سے یوں بدکتے ہیں جیسے انہیں کسی کرنٹ نے جھٹکا لگا دیا ہو۔ وہ اپنی مستقبل کی سیاست میں آپ کا نام استعمال کرنا تو کجا، آپ کے سائے سے بھی دور رہنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں جنرل مشرف صاحب، آپ کے پالتوئوں، وفاداروں میں آپ کیلئے وفا نہیں رہی تو جو عوام آپ سے زخم کھائے بیٹھے ہیں۔ آپ کی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں وہ بھلا آپ کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھانے کیلئے کیوں فکر مند ہوں گے۔ آپ بس اب اپنی زندگی کیلئے فکر مند رہا کریں اور عوام کے قریب آنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے آمریت دفن کی ہے تو بھلا آمر کو کیسے برداشت کریں گے۔