طبیب ڈاکٹر ہو یا حکیم… اس کا پہلا کام مرض کی تشخیص کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد علاج۔ اگر درست تشخیص نہ ہو سکے تو اچھی سے اچھی دوا بھی کام نہیں کرتی۔ الٹا اثر دکھاتی ہے لہٰذا اچھے اور کامیاب معالج کی نشانی ہی یہ سمجھی جاتی ہے وہ مرض کی بروقت اور صحیح تشخیص کرنے کے بعد فوراً علاج کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے لیکن اس طبیب کا کیا کیجئے جس کے اندر مرض کی نوعیت‘ اس کا سبب اور وجوہ جان لینے کی صلاحیت تو بدرجہ اتم پائی جاتی ہے لیکن علاج کے بارے میں تساہل سے کام لے۔ مریض تڑپ تڑپ کر بے حال ہو جاتا ہے لیکن طبیب لواحقین کو اس تسلی پر ٹرخا دیتا ہے مرض کی جڑوں تک پہنچ گیا ہوں۔ علاج سے بھی واقف ہوں۔ بس نسخہ لکھنے کی دیر ہے۔ دوا ملے گی شفا ہو جائے گی۔ یہ نسخہ لکھا جاتا ہے نہ مریض کو دوا دی جاتی ہے۔ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بیمار کے ساتھ معمولی درجے کی ہمدردی رکھنے والا بھی اس صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتا۔ معالج کو کوسے گا اور دوسرے کی تلاش کرے گا۔ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے پاکستان کو جو سب سے بڑا مرض لاحق ہے اس کی تشخیص ہو چکی ہے حکمران اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں۔ لیکن علاج کی جانب نہیں آ رہے۔ نسخہ موجود ہے اس کے مطابق دوا نہیں مہیا کی جا رہی یعنی وہ صورتحال نہیں جس کے متعلق شاعر نے کہا تھا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ یہاں مرض پوری طرح قابل علاج ہے لیکن دوا نہ دینے کی مجرمانہ غفلت سے کام لیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے موجودہ نظام صدارتی ہے نہ پارلیمانی۔ کھچڑی سی ہے۔ اس بنا پر جناب وزیراعظم کے نزدیک اداروں میں تصادم ہوتا ہے۔ گویا آئین اپنی اصلی حالت میں نافذ ہو۔ صحیح معنوں میں پارلیمانی ہو جیسا کہ اس کے بانیوں نے تیار کیا تھا۔ تو ادارے حدود میں رہ کر کام کریں گے۔ اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کریں گے۔ ان میں تصادم نہیں ہو گا تو ملکی حالات میں کوئی بڑا بگاڑ پیدا نہیں ہو گا۔ چھوٹے بڑے مسائل کا تو ہر قوم کو سامنا رہتا ہے۔ اگر اس کی گاڑی پٹڑی سے نیچے نہ اتری ہو۔ منزل کی جانب گامزن ہو تو راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانا‘ درپیش مشکلات سے نبرد آزما ہونا اور کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہنا ناممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اگر مجرمانہ سازشوں اور حکمرانوں کی ہر حالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی خواہش اور دوسری اغراض کی وجہ سے جان بوجھ کر گاڑی کو پٹڑی پر نہ چڑھایا جائے تو اس کا حال وہی ہو گا جو گذشتہ 60 برس سے پاکستان کا چلا آ رہا ہے۔
جناب یوسف رضا گیلانی اگرچہ پیپلز پارٹی کی جانب سے قائدِ ایوان ہیں۔ لیکن وہ خوش قسمت ہیں انہیں تمام پارلیمانی جماعتوں نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ اس طرح وہ تمام قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں قومی مرض کی مکمل تشخیص ہے اور علاج سے بھی واقف ہیں۔ اس کا اظہار بھی کھل کر کیا ہے۔ پھر مریض کیوں نہیں صحت یاب ہو رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے علاج نہیں ہو رہا۔ دوا نہیں دی جا رہی۔ آخر کیوں؟ وزیراعظم نے جہاں تشخیص کی ہے وہاں اگر ازراہ کرم یہ بھی بتا دیتے کہ آئین پاکستان کو جو چوں چوں کا مربّہ بنا دیا گیا ہے اسے درست حالت میں واپس لانے میں اتنی تاخیر سے کام کیوں لیا جا رہا ہے۔ آپ مرض سے واقف ہیں اور علاج نہیں کرتے۔ دوا بھی دستیاب ہے اسے مریض کو نہیں پلاتے تو پھر ذمہ دار کون ہے۔ اگر جناب وزیراعظم کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ ہے یا کچھ اقتدار پرست عناصر حائل ہیں تو انہیں کھل کر قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ ان چہروں کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ آئین جیسی مقدس قومی دستاویز کو اگر 58(2)B سمیت سترہویں ترمیم سے پاک کر دیا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام نافذ ہو جاتا ہے۔ یکسوئی آ جائے گی۔ کارِ ریاست و حکومت مسلمّہ قواعد و ضوابط کے مطابق چلایا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنی حدود کا علم ہو گا۔ تصادم کے امکانات باقی نہیں رہیں گے۔ آخر یہ کام کیوں نہیں کیا جاتا۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے موجودہ نظام صدارتی ہے نہ پارلیمانی۔ کھچڑی سی ہے۔ اس بنا پر جناب وزیراعظم کے نزدیک اداروں میں تصادم ہوتا ہے۔ گویا آئین اپنی اصلی حالت میں نافذ ہو۔ صحیح معنوں میں پارلیمانی ہو جیسا کہ اس کے بانیوں نے تیار کیا تھا۔ تو ادارے حدود میں رہ کر کام کریں گے۔ اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کریں گے۔ ان میں تصادم نہیں ہو گا تو ملکی حالات میں کوئی بڑا بگاڑ پیدا نہیں ہو گا۔ چھوٹے بڑے مسائل کا تو ہر قوم کو سامنا رہتا ہے۔ اگر اس کی گاڑی پٹڑی سے نیچے نہ اتری ہو۔ منزل کی جانب گامزن ہو تو راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانا‘ درپیش مشکلات سے نبرد آزما ہونا اور کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہنا ناممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اگر مجرمانہ سازشوں اور حکمرانوں کی ہر حالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی خواہش اور دوسری اغراض کی وجہ سے جان بوجھ کر گاڑی کو پٹڑی پر نہ چڑھایا جائے تو اس کا حال وہی ہو گا جو گذشتہ 60 برس سے پاکستان کا چلا آ رہا ہے۔
جناب یوسف رضا گیلانی اگرچہ پیپلز پارٹی کی جانب سے قائدِ ایوان ہیں۔ لیکن وہ خوش قسمت ہیں انہیں تمام پارلیمانی جماعتوں نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ اس طرح وہ تمام قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں قومی مرض کی مکمل تشخیص ہے اور علاج سے بھی واقف ہیں۔ اس کا اظہار بھی کھل کر کیا ہے۔ پھر مریض کیوں نہیں صحت یاب ہو رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے علاج نہیں ہو رہا۔ دوا نہیں دی جا رہی۔ آخر کیوں؟ وزیراعظم نے جہاں تشخیص کی ہے وہاں اگر ازراہ کرم یہ بھی بتا دیتے کہ آئین پاکستان کو جو چوں چوں کا مربّہ بنا دیا گیا ہے اسے درست حالت میں واپس لانے میں اتنی تاخیر سے کام کیوں لیا جا رہا ہے۔ آپ مرض سے واقف ہیں اور علاج نہیں کرتے۔ دوا بھی دستیاب ہے اسے مریض کو نہیں پلاتے تو پھر ذمہ دار کون ہے۔ اگر جناب وزیراعظم کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ ہے یا کچھ اقتدار پرست عناصر حائل ہیں تو انہیں کھل کر قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ ان چہروں کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ آئین جیسی مقدس قومی دستاویز کو اگر 58(2)B سمیت سترہویں ترمیم سے پاک کر دیا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام نافذ ہو جاتا ہے۔ یکسوئی آ جائے گی۔ کارِ ریاست و حکومت مسلمّہ قواعد و ضوابط کے مطابق چلایا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنی حدود کا علم ہو گا۔ تصادم کے امکانات باقی نہیں رہیں گے۔ آخر یہ کام کیوں نہیں کیا جاتا۔