میرٹ اور سینیارٹی
وطن عزیز میں حالیہ دنوں میں عدلیہ کی ساکھ ،نظام انصاف ججز کی تقرریاں جیسے موضوعات کثرت سے زیر بحث ہیں۔ خاص طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک نے تو سیاسی طور پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اسی تناظر میں ججز کی تقرریاں خصوصی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ایسے حساس موضوعات پر اسطرح کی بحث پاکستان جیسے ممالک میں توہین عدالت کی کارروائی کا باعث بھی بنتی ہیں اسی لئے بعض مبصرین اس پر بات کرنے سے گریز کو ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ امریکہ جیسے ممالک میں بھی ججز کی شہرت ان کے فیصلوں کی بجائے ان کے نظریات سے ہوتی ہے۔ کوئی جج کنزرویٹو کہلاتا ہے تو کوئی لبرل کہلاتا ہے اسکے باوجود ان کے نظریات فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ پاکستان میں معزز جج حضرات کی سیاسی وابستگیوں اور ان کے فیصلوں کی بات ہوتی رہتی ہے۔ آجکل سیاست میڈیا اور عدلیہ میں اگر دیکھا جائے تو محاذ آرائی عروج پر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے دائو پیچ لڑا رہی ہیں ہر کوئی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ادارہ جاتی سٹرکچر تباہ کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کیلئے حکومتی کوششیں زبان زدعام ہیں حکومت اس کا صنفی اعتبار سے کریڈٹ لیتی دکھا ئی دیتی ہے اور مستقبل کی صف بندی بھی کررہی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ان کی سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کے ممبران کی تقسیم چار اور اور چار تھی چار ان کی سپریم کورٹ میں تقرری کے حق میں تھے جبکہ چار اراکین نے اسکی مخالفت کی مخالفت کرنے والے اراکین سنیارٹی نہ ہونے کو وجہ قرار دیتے ہیں کمیشن کی میٹنگ میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس طارق مسعود،جسٹس دوست محمد خان، اورجسٹس اختر حسین تھے جنہوں نے عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی۔ ان کی حمایت کرنے والوں میں چیف جسٹس گلزار، جسٹس عمر عطا بندیال، فیڈرل لاء منسٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اس کی حمایت کی تھی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس حوالے سے خط لکھا ہے کہ تقرری کے اصولوں کو رائج کرنے کیلئے طریقہ کار وضع ہونا ضروری ہے کہ تقرری کیلئے معیار قابلیت ہونا چاہیئے یا سنیارٹی ہونا چاہیئے۔ ان کی پیشہ وارانہ قابلیت اور تجربہ کو پرکھنا بھی ضروری ہونا چاہیئے۔ اس معاملے پر تمام فریق جس میں بار کونسلز بھی شامل ہیں۔ سنجیدہ نظر نہیں آتے اور سب نے ملکر اس معاملے کو متاثر کیا ہے جس کا براہ راست اثر جسٹس عائشہ ملک کو ہوا ۔یہ معاملہ دانستہ متنازعہ کیا گیا ہے اب بھی ہمیں اس معاملے سے ہٹ کر یہ اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ ججز کی تقرریاں قابلیت پر ہوں گی یا سنیارٹی پر ہونی ہیں۔ تمام دھڑے سپریم کورٹ میں اپنا اثر بڑھانے کی بجائے نظام انصاف کو درپیش مسائل حل کرنے کیلیئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ نظام انصاف اور عدلیہ کی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے.اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان اور وفاقی وزیر فروغ نسیم وزیر اعظم کی ہدایت پر ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اکابرین جوڈیشل کمیشن کے اراکین کو قائل کرنے کیلئے اقدامات بھی کررہے ہیں۔جبکہ اچھی ساکھ کے حامل ججز کی رائے ہے کہ سنیارٹی کو توڑنا نہیں چاہیئے۔ اسی طرح بار کونسلز بھی سنیارٹی کے حق میں ہیں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی جو سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہیں وہ سپریم کورٹ میں جانے سے معذرت کرچکے ہیں جبکہ ان کے بعد جسٹس شہزاد اور جسٹس شجاعت سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی جگہ لینے کے خواہشمند ہیں اور انہوں نے تو اپنے کوائف بھی سپریم کورٹ بھجوادیئے ہیں حکومت کی کوشش ہے کہ سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر عائشہ اے ملک کو سپریم کورٹ کاجج بنوادے تاکہ 2030 ء میں وہ چیف جسٹس بن جائیں۔ 2023 ء میں چیف جسٹس بننے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کیلیئے حکومتی اصرار جاری ہے ۔ویسے اسوقت ملک میں تاریخ کے جج کھڑک سنگھ کی اشد ضرورت ہے جنہوں نے قتل کے ایک مقدمے میں کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے تھے۔جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں انکا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔کہتے ہیں کہ جب تک کھڑک سنگھ جج رہے، پٹیالہ ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوا۔