وزیراعظم اور آرمی چیف سے افغان وفد کی ملاقات میں پرامن افغانستان پر اتفاق ‘پاک بحریہ کا تارپیڈو فائر کا کامیاب تجربہ
وحدت اسلامی افغانستان کے رہنماء استاد کریم خلیلی نے وفد کے ساتھ اسلام آباد میں حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن واستحکام چاہتا ہے۔ پرامن اور مستحکم افغانستان تجارت کی نئی راہیں کھولے گا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ مسئلہ افغانستان کے حل کیلئے تمام فریقین مل کر کام کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغان مسئلہ کے جامع حل کیلئے بین الافغان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے اپنے اس دیرینہ موقف کو دہرایا کہ افغانستان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں اور اس کا واحد حل سیاسی بات چیت ہے۔ افغان امن عمل کی پاکستان کی جانب سے مسلسل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایک وسیع البنیاد اور محفوظ حل کیلئے بین الافغان مذاکراتی عمل ناگزیر ہے۔ افغانستان میں تشدد میں کمی اور سیز فائر کی ضرورت ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان جو خود اور پڑوسیوں کے ساتھ بھی پر امن ہو، پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ دوران ملاقات کریم خلیلی نے پاکستان کے مثبت کردار اور پاک افغان تعلقات کے بارے میں آرمی چیف کے ویژن کو سراہا۔
افغانستان کا پرامن ہونا پاکستان ہی نہیں خطے کے امن کیلئے بھی ناگزیر ہے۔ اسی لئے پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ امریکہ اور طالبان نائن الیون کے بعد لگ بھگ 18 انیس سال سے دو انتہائوں پر بیٹھے رہے۔ دونوں کی طرف سے طاقت کے ذریعے اپنا اپنا موقف منوانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مذاکرات کے آپشن کو دونوں کی طرف سے خارج ازامکان قرار دیا جاتا رہا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ایک طویل عرصہ سے افغان جنگ میں پارٹی یا فریق بنی رہی۔ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی جاتی رہی مگر امریکہ کے پاکستان پر اعتماد میں کمی آتی گئی۔ ایک موقع پر ایسابھی ہوا جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پڑتی دراڑیں کشیدگی کی انتہاء کو چھونے لگیں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی امداد بند کردی گئی‘ حملوں کی دھمکیاں دی جانے لگیں‘ کمزور سیاسی قیادتیں بے بس بنی نظر آئیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین اختلافات پیدا کرنے اور ان کو بڑھاوا دینے میں بھارت کا جھوٹا پراپیگنڈا‘ لغو الزامات اور فیک نیوز کا ہاتھ تھا جس کی حقیقت ڈس انفولیب کی صورت اور ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے آئی ہے۔
آج کی حکومت نے امریکہ کے سامنے حقیقی صورتحال رکھنے کی کوشش کی۔ اسے آمادہ کیا کہ گولی کسی مسئلے کا حل نہیں‘ مذاکرات ہی سے ایسے مسائل کا واحد حل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کریم خلیلی کے ساتھ ملاقات میں بھی اپنے اسی موقف کو دہرایا ہے۔ بات امریکی حکام کی سمجھ میں آگئی۔ امریکہ مذاکرات پر آمادہ ہوا تاہم براہ راست مذاکرات سے کترا رہا تھا۔ پاکستان نے اسکی یہ ہچکچاہٹ بھی دور کر دی۔ فریقین مذاکرات کی میز پر آئے اور راستے کھلتے گئے۔ طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔
افغان امن معاہدہ پر عمل کی راہ میں وہی عناصر رکاوٹ ہیں جو پہلے امریکہ طالبان مذاکرات اور پھر مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آنیوالے معاہدے کی مخالفت کرتے رہے۔ بھارت اور افغان حکمرانوں کا پاکستان کیخلاف گٹھ جوڑ کبھی اخفا میں نہیں رہا۔ طالبان کے مختصر دور کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد افغان حکمرانوں کا بھارت کے طفیلی کا کردار رہا ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کی اور بدستور کررہا ہے۔ اشرف غنی انتظامیہ طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرکے اقتدار میں حصہ دار بنانے سے گریز کررہی ہے۔ افغانستان میں امن بحال ہوتا ہے تو بھارت کیلئے پاکستان میں مداخلت کے راستے بند ہو جائینگے۔ بھارت اور افغان حکمران اپنے اپنے مقاصد کیلئے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ بھارت کے ایماء پر ہی افغان حکمران امریکہ طالبان مذاکرات اور معاہدے کی مخالفت کرتے رہے۔ امریکہ کو بھی مذاکرات اور معاہدے سے برگشتہ کرنے کی اشرف غنی انتظامیہ نے کوششیں اور سازشیں کیں مگر امریکہ کا مفاد طالبان کے ساتھ امن معاہدے سے وابستہ ہے۔ لہٰذا امریکہ نے اسے سختی سے شٹ اپ کال دی۔ جنگ بندی کی شق بھی معاہدے کا حصہ تھی۔ اس شق پر عمل سے پہلے ہی افغان حکومت نے طالبان کیخلاف اپریشن اور حملے کرکے اسے سبوتاژ کر دیا۔ جواب میں طالبان نے بھی حملے جاری رکھے۔ آج افغان امن عمل کی راہ میں افغان حکومت انٹرا افغان مذاکرات میں لیت و لعل سے کام لے کر رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ آج کے افغان حکمران جب تک افغان امن عمل میں نیک نیتی سے فریق نہیں ہونگے امن عمل کاتکمیل پذیر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ امریکہ نے کافی حد تک بھارت کا امریکہ میں عمل دخل کم کر دیا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے بھارت کا مکمل طور پر عمل دخل ختم کرنا ہوگا۔ امریکہ نے جس طرح افغان حکمرانوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدے کی مخالفت پر سخت موقف اختیار کیا تھا‘ آج پھر اسی رویے کی ضرورت ہے۔ افغان عمل امن کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے طالبان اور افغان حکومت کے مابین جنگ بندی معاہدہ کرانا اور اس پر بہرصورت عمل کرانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اسی پر زور دے رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ بھی اس حوالے سے کوشاں رہے ہیں۔
بھارت پاکستان میں دہشت گردی اور پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کیلئے سازشوں کا جال بنتا رہتا ہے۔ اس نے دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا۔ پاکستان نے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا اور اسکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ پاکستان کا دفاع یقیناً ناقابل تسخیر ہے جسے مضبوط تر بنانے کے اقدامات ہوتے رہتے ہیں۔ اسلحہ و ہتھیاروں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ ہتھیاروں کے تجربات ہوتے ہیں اسکی تازہ ترین مثال گزشتہ روز پاک بحریہ کا آبدوز سے اینٹی شپ میزائل تارپیڈو فائر کرنے کا کامیاب مظاہرہ ہے۔پاک بحریہ کے فلیٹ یونٹس کا شمالی بحیرہ عرب میں ہتھیاروں کی کامیاب لائیو فائرنگ کے ذریعے جنگی تیاری کا بھرپور مظاہرہ کرنا اور آبدوزوں سے داغے گئے جہاز شکن میزائلز اور تارپیڈو نے اپنے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنانا پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں اور حربی قابلیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024