جمعرات‘ 29؍ جمادی الاوّل 1442ھ‘ 14؍ جنوری 2021ء
گھی کی فی کلو قیمت میں مزید 25 روپے اضافے کی منظوری
اگر خبر صرف یہ ہوتی کہ اس انتہائی نامعقول اضافے کی سمری بھیجی گئی ہے تو صبر و قرار کا دامن ذرا اور وسیع کرکے خاموش رہا جا سکتا تھا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے یہ سمری منظور کر لی ہے۔ یوں اب گھی کی قیمت جو پچھلے ہفتے سے بے قابوہوکر عوام پر بے قابو بس کی طرح چڑھی جا رہی تھی‘ مزید تباہی پھیلاتی خدا جانے کہاں رکے گی۔ اب یوٹیلٹی سٹور جیسے غریبوںکے شاپنگ مال میںانتہائی عام کوالٹی کا گھی 195 روپے فی کلو فروخت ہوگا۔ اب غریب کھائے تو کھائے کیا۔ اب تو چپڑی روٹی اور پراٹھا بھی اس کی پہنچ اور دسترخوان سے غائب ہو جائے گا۔ اول تو بناسپتی گھی کو حکومت مضر صحت قرار دیکر اس پر پابندی کے سپنے دیکھ رہی ہے‘ دوسری طرف اس کی قیمتیں بڑھا کر غالباً حفظ ماتقدم کے طورپر عوام کی پہنچ سے بھی دور کر رہی ہے۔ یوں اب ’’پانچوں انگلیاں گھی میں‘‘ والا محاور بھی تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ جب گھی دستیاب ہی نہیں ہوگا‘ پانچوں انگلیاں اس میں کون ڈبوئے گا۔ اب تو کوئی نیا محاورہ ایجاد کرنا ہوگا جس میں گھی کی کمیابی کا رونا دھونا ہو۔ لوگ اب مہنگا گھی دیکھ کر ’’گھی کڑوا ہے‘‘ کا نیا محاورہ بھی ایجاد کر سکتے ہیں کیونکہ اب گھی کی لذت سے عوام کو محروم کیا جا رہا ہے۔ اشرافیہ کو گھی مہنگا ہونے سے کچھ نہیں ہوگا وہ تو پہلے ہی اعلیٰ کوالٹی کا غیرملکی کوکنگ آئل یا زیتون کا تیل کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ بناسپتی گھی تو غریبوں کیلئے بچا تھا‘ سو اب وہ بھی نہ رہا۔
٭٭٭٭٭
بھارت کبھی اکھنڈ دیش نہیں رہا: نیپالی وزیراعظم
جی ہاں یہ ایک بالکل سچی بات ہے۔ کوئی پڑھا لکھا دانشور اس سے انکار نہیں کرے گا۔ مورخین کی کتابیں گواہ ہیں کہ صرف مہاراجہ اشوک اور اس کے بعد اس کے بیٹے کنشک کے دور میں بھارت کے وسیع علاقے پر ایک مرکزی حکومت قائم ہو سکی۔ اس میں بھی یہ بات قابل غور ہے کہ اشوک نے ہندومت چھوڑ کر بدھ مت اختیار کیا تھا۔ اس لئے اسے ہم بدھ مت کا دور کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگر بھارت کے وسیع خطے پر کوئی مرکزی حکومت قائم کر سکا تو وہ مغل بادشاہ تھے۔ یعنی مسلمان حکمران ان کے بعد یہ اعزاز انگریزوں کے پاس رہا کہ وہ بھارت کے واحد حکمران تھے۔ اب نیپالی وزیراعظم نے سچ کہہ ہی دیا ہے تو اس پر بھارتی حکمرانوں ہندو انتہاپسندوں کو سیخ پا نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ سچ سچ ہوتا ہے۔ اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خودبخود سامنے آجاتا ہے۔ دراصل بھارت کو نیپال کی چین کے ساتھ دوستی اور بڑھتے ہوئے قریبی روابط ہضم نہیں ہو رہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نیپال پہلے کی طرح بھارت کا سعادت مند مودب غلام بن کر کھڑا رہے مگر اب ایسا نہیں رہا۔ نیپال والے کھل کر بھارت سے اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے کا عزم دہرا رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ نیپالی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر ’’شری رام چندر کی جائے پیدائش اصل ایودھیا نیپال میں ہے‘ بھارت میں نہیں‘‘ کہہ کر بھارتی مذہبی انتہاپسندوں کے منہ پر کالک مل دی ہے۔ جنہوں نے نہایت بے شرمی اورہٹ دھرمی سے بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دیکر شہید کیا۔ امید ہے نیپالی وزیراعظم کے بھارتی ٹی وی چینل کو دیئے اس انٹرویو کے بعد بھارتی حکمرانوں کی امیدوں پر منوں اوس پڑ گئی ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭
لاہور کی صفائی کا نظام اسلم اقبال کے سپرد
یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا صوبائی وزیر صنعت پر گہرے اعتماد کا مظہر ہے۔ ورنہ گزشتہ کئی ہفتوں سے وہ لاہور میں صفائی کرنے والے اداروں کے افسران اور عملے کو کہہ کہہ کر دیکھ چکے ہیں مگر ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ‘‘ والے محاورے کے مطابق کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ لاہور میں گندگی کے ڈھیر ، ابلتے ابلتے ہوئے گٹر کئی مہینوں سے عوام کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بزبان دیگر کہہ رہے ہیں کہ کو جو کر نا ہے۔ گندگی سے بنے یہ آرٹ کے نمونے اکثر گنجان آبادی والے علاقوں کے چوراہوں پر عوام کی تفریح طبع کے لیے سجے ہوئے ہیں۔ قریب ہی سیوریج کا بدبو دار بہتا پانی بھی لوگوں کی حس لطافت کو مٹانے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اب تو یہ میڈیا والوں نے آ کر رنگ میں بھنگ ڈالا ہے ورنہ عوام آہستہ آہستہ ان چیزوں کے عادی ہوتے جا رہے تھے۔ آخر پہلے بھی تو لاہور والے ایسے ہی حسین مناظر میں رہتے تھے۔ میاں اسلم اقبال وزیر صنعت ہیں انہیں ہم فرزند لاہور بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا اوڑھنا بچھونا لاہور میں ہی ہے۔ مگر وہ بظاہر بہت نفیس اور صلح جو قسم کے سیاستدان معلوم ہوتے ہیں ، جبکہ لاہور کی صفائی کے اس بگڑے نظام کو درست کرنے کے لئے شیر لاہور قسم کا جگرا رکھنے والا ہی چل سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اب میاں اسلم اقبال کب تک لاہور کو پھر صاف شہر بناتے ہیں۔ شہریوں کو ان سے بہت توقعات ہیں۔
٭٭٭٭٭
بلاول اور آصف زرداری کو بائیڈن کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت
دیکھتے ہیں کون جاتا ہے۔ زرداری صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ ان کی صحت اور ان کے ڈاکٹر شاید ہی انہیں اس تقریب میں شرکت کی اجازت دیں۔ ہاں البتہ پی پی کے سیاسی مشیروں کی کوشش ہو گی کہ وہ بلاول کو آمادہ کریں کہ وہ ضرور از ضرور امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کر کے ان کے دوستوں میں اپنا نام لکھوا لیں ۔ ابھی اور بھی پتہ نہیں کس کس پاکستانی سیاستدان کو اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہو گا۔ ایک وقت تھا پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو مرحوم کا نام امریکہ دشمنوں میں سرفہرست تھا۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ امریکہ والے خود پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو اپنا دوست سمجھتے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں وقت وقت کی بات۔ ویسے اس وقت امریکی صدر کی تقریب حلف برداری بھی کئی متوقع خدشات کا شکار ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی طرف سے اپنے جنونی حامیوں کو امریکی ایوان نمائندگان پر حملے کی ہدایت کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ خاصی تشویشناک ہے۔ تمام تر اخلاقی گراوٹ اور جرائم پسند طبیعت کے باوجود امریکی ایسی سیاسی بدامنی کے عادی نہیں۔ مستقبل کے خدشات کے پیش نظر اب امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں 24 فروری تک ایمرجنسی کرفیو نافذکر دیا گیا ہے تاکہ کسی بدمزگی سے بچا جا سکے۔ حالت یہ ہو چکی ہے امریکی ایوان نمائندگان خبطی ٹرمپ کے خلاف قرارداد منظور کر چکا ہے کہ اسے آئینی ترمیم کے ذریعے بھی عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ امریکی نو منتخب صدر اور ان کے حامی ہی نہیں امریکی انتظامیہ کو پریشانی ہے کہ کہیں یہ پاگل شخص جاتے جاتے کوئی نئی تباہی نہ پھیلا دے۔