سانحہ مچھ کے منفی اثرات

بلوچستان کی سیاست کا اپنا انداز ہے وہاں مذہبی ، مسلکی ، لسانی ، گروہی اور نسلی اختلافات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پہلے یہ سیاسی تقسیم بلوچ اور پشتونوں کے درمیان تھی۔ یہ دو اقوام بلوچستان کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے اور انہی کے درمیان سیاسی و اقتدار کی رسہ کشی جاری رہتی تھی۔ خوش قسمتی سے یہ دونوں اقوام صوبہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی اور بلوچ اکثریتی علاقوں میں قدرتی طور پرتقسیم تھے۔ چمن سے کوئٹہ تک پشتون اور گوادر سے کوئٹہ تک بلوچ آباد ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جاتے یا وہاں موجود نہیں۔ کوئٹہ دارالحکومت میں بلوچ، بروہی ، پٹھان ، پنجابی سب مل جل کر رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ سبی ، خضدار ، قلات ، لورالائی وغیرہ میں بھی یہ سب باہمی شیر و شکر ہیں۔ انکے درمیان رشتہ داریاں بھی ہیں۔ 1970ء تک بہت کم سیاسی بدمزگی یا لسانی و گروہی سیاست سامنے آئی۔ مگر اس کے بعد آہستہ آہستہ بلوچ اور پٹھان کی تقسیم نے تعلیمی اداروں میں جڑ پکڑنا شروع کیا۔ پی ایس او اور بی ایس او دو بڑی طلبہ تنظیمیں تھیں۔ اس وقت تک مذہبی سیاست بلوچستان میں بہت زیادہ طاقتور نہیں تھی۔ پنجابی جنہیں سیٹلر بھی کہتے ہیں کی علیحدہ کوئی سیاسی شناخت نہیں رکھتے۔ لے دے کر کوئٹہ شہر میں چند کونسلر یا ایک عدد ایم پی اے انکے ووٹوں کی طاقت سے انکی نمائندگی کیلئے دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک خاموش طبقہ ہزارہ کا بھی تھا۔ یہ کوئٹہ کے کاروباری مراکز پر چھایا ہوا تھا۔ان کا بھی ایک ایم پی اے اور چند کونسلر بنتے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ کوئٹہ میں اپنے لیے ایک علاقہ مختص کرے وہاں برادری کی شکل میں آباد ہیں۔ اسے مری آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے یہاں صرف ہزارہ برادری کے لوگ رہتے تھے۔ دوسری کسی برادری کا شخص وہاںنہیں رہتا۔ ان سب کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔ عید گاہ روڈ، عملدار روڈ سے البتہ دیگر برادری مثلاً پنجابی ، پٹھان اور بلوچوں کے گھر شروع ہو جاتے ہیں۔ مری آباد کی پشت پر کوہ مردار کی فصیل ہے تو دائیں طرف کوئٹہ چھائونی بائیں طرف کانسی قبرستان سے ملحق پشتون آباد ، سامنے کوئٹہ کا شہرہے۔ ایران میں مذہبی انقلاب کے بعد یہاں کی شیعہ کمیونٹی میں مذہبی بیداری بڑھ گئی ۔ افغانستان کی جنگ کے ساتھ وہاں سے ہزارہ بھی بھاگ کر پاکستان آئے اور کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ آباد ہو گئے تو انکی آبادی جو پہلے ہزاروں میں تھی لاکھوں تک پہنچ گئی تو بروری میں ہزارہ ٹائون بنالیا۔ یوں انکی سیاست کا رنگ بھی بدلا ، افغان ہزارے پاکستان سے وہ محبت نہیں رکھتے تھے جو پاکستانی ہزاروں کو ہے۔ اسکے ساتھ ہی ایرانی اور سعودی لابی کے زیر اثر افراد نے یہاں مسلکی خلیج گہری کر دی ۔ کوئٹہ شہر یا بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے مچھ میں عرصہ دراز سے یہ خدشہ سر اٹھا رہا تھاکہ وہاں کی مقامی آبادی جس کی اکثریت سنی ہے اور ان میں بلوچوں اور پٹھانوں کی اکثریت ہے کہیں یہاں ہزارہ برادری کی مذہبی تقریبات کی وجہ سے کوئی فساد نہ برپا ہو۔ اسکے ساتھ کان کنی کی صنعت میں یہاں خیبر پی کے خاص طور پر سوات کے پٹھانوںکی اکثریت تھی یہ سب سخت گیر مذہبی موقف رکھتے ہیں۔ یوں یہاں ہزاروں مزدوروں کو بھی ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جا رہاکیونکہ یہاں سواتی برادری کے مزدوروں کی اجارہ داری تھی۔ گزشتہ دس بیس برسوں سے بلوچستان میں آنیوالے افغان مہاجرین نے جب زور پکڑا تو یہاں سے چن چن کر پنجابی آباد کاروں کو گھر بار اور کاروبار چھوڑنے پرمجبور کیا گیا۔ پھر اس کے بعد بلوچ علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں پنجابی مزدوروں کا جو بلوچ علاقوں میں محنت مزدوری کرتے تھے کا قتل عام شروع ہوا۔ اب اسکے بعد مچھ میں ہزارہ کان کنوں کا بیدردی سے قتل کاسانحہ پیش آیا تو اس منظم برادری نے مغربی بائی پاس کی مرکزی سڑک بند کر دی اوردھرنا دیا۔ کئی مقتولین کا تعلق افغانستان سے تھا اس لیے انکی نعشیں افغان حکومت کو دی جائیں اطلاعات کے مطابق کئی نعشیں افغانستان تدفین کیلئے لے جائی گئیں۔ اب اس قتل کا تعلق ’’داعش‘‘ سے جوڑا گیا ہے اگر ایسا ہے تو یہ نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ عراق کے بعد امریکہ ، ایران کو داعش کا مرکزی ہیڈ کوارٹر قرار دے رہا ہے اور ساتھ ہی بلوچستان کے سانحہ میں داعش کانام آنے سے لامحالہ پاکستان میں بھی داعش کا وجود ثابت کرنے کی کوشش ہو گی جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہو گی اور اسکے خلاف پابندیاں لگ سکتی ہیں اس لئے حکومت اس سانحہ میںملوث اصل چہرے بے نقاب کرے ورنہ حکومت کیلئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر کسی پابندی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ داعش کا نام لے کر ایسی وارداتیں کررہے ہیں ان میں پاکستانی طالبان بھی ہو سکتے ہیں۔ انکی ان وارداتوں میں داعش کا نام لے کر جو نئی سازش رچائی جا رہی ہے اسکے ملک پر بدترین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت اور خفیہ والوںکو نہایت سرعت کے ساتھ ایسے سازشی عناصر کو شکنجے میں لانا ہو گا کیونکہ خدا خدا کرکے داعش سے جان چھوٹی تھی۔ اب اسے پاکستان میں کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس پر فوری ایکش