ہمارے موجودہ ٹاک شوز

آج سے کچھ عرصہ پہلے ، ایک ٹاک شو دیکھنے کو ملا ، تو مرحو م و مغفور پی ٹی آئی کے نعیم الحق کی محترم دانیال عزیز سے تو تو میں میں سے بات بڑھتے ہوئے ، ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔اسی طرح اکثر ٹاک شوز میں آج کل بدتہذیبی اور تو تکار کے مناظر خواتین کے شوز میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔کسی کوموضوع پر کتنی گرفت ہے کیا معیار ہے کتنی تعلیم ہے ، اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کسی چینل پر میدان صحافت کے لوگ، کسی پر ممبران اسمبلی اور کسی پر وزراء کی نرم و گرم گفتگو سننے کو مل رہی ہو تی ہے اور بعض حضرات تو جناب اینکر صاحب کی ہاںمیں ہاں ملانے پر ہی اکتفا کر رہے ہوتے ہیں ،جتنی توتکار زیادہ ہوتی ہے ، شائد اتنی ہی اس پروگرام کی ریٹنگ زیادہ ہوتی ہے یا اسی شرح سے اشتہارات زیادہ ملتے ہیں اور انکم میں اضافہ ہوتا ہے ویسے حکومت مخالف ٹاک شوز کو اکثر زیادہ پذیرائی ملتی ہے لیکن زیر بحث موضوعات پر ماہرین کا پینل اکثر اوقات غیر واضح یا فیصلہ کن علم کا حامل کم ہی نظر آتا ہے ۔ یہ شوز زیادہ تر عوامی اصلاح کی بجائے، ان کی تفریح طبع کاسامان زیادہ بہم پہنچاتے نظر آتے ہیں۔بعض ٹاک شوز میں اینکرز کا سیلف گلورفیائی اور اپنی بڑھائی بیان کرنے پر زور ہوتا ہے اور حاکمانہ، فلسفیانہ اندار ہوتا ہے۔قومی مسائل پر خلوص نیت تو کم کم ، لیکن اپنی انا کے اسیر زیادہ نظر آتے ہیں بعض شرکاء اپنی اپنی پارٹی کے نقطہ نظر کے زیادہ شکار بلکہ اڑیل نظر آتے اور بے تکان ایک دوسرے کو لن ترانیاں سناتے ہوئے، دشنام ترازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ حتی کے ناظرین کو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس اینکر صاحب نے کیا کہنا ہے اور یہ ایکسپرٹ نے کیا کہنا ہے چہ جائیکہ قومی مسائل پر دل جمعی ،درد دل سے سیر حاصل بحث کی جائے اور حقائق کی دنیا میں رہتے ہوئے ،آسمان کے تارے توڑنے والوں لیڈروں کی تعریفوں کے قلابے ملائے جائیںحالانکہ ہر شعبے کے ہنر مند افراد جن کی بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہو، ان کو مدعو کرنا وقت کی ، قوم کی چینل کی ضرورت ہونا چاہئے۔قانونی مسائل پر تو ماہرین قانون اوراسی طرح ہر فیلڈ کے مطابق پینل آف ایکسپرٹس ہونے چاہئے جیسا کے کرونا کے ایشو پر ہیلتھ پروفیشنلز کا ٹاپ لیول کا پول ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح اقتصادی ترقی کے لئے، ٹیکس میں اضافہ کیلئے روزانہ کی بنیاد پر ترغیبات اور شرائط و ضوابط پر مکالمہ روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ لیکن ادھر تو یہ کہ ’’چلی ہے رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘ کہ مصداق کسی کی بھی پگڑی کسی بھی وقت ہوا میں اچھالی جا سکتی ہے ماضی کے کلپ چلا کر کسی بھی شخصیت کو لاجواب کیا جا سکتا ہے اور پھر ان محترم اینکر صاحب کی فاتحانہ مسکراہٹ دیدنی ہوتی ہے، ہمارے ہاں کوئی بھی حکمران پارٹی کسی بھی وقت میڈا ٹرائل کے بعد الزامات کی زد میں آ کر حکومت سے رخصت کی جا سکتی ہے چہ جائیکہ اس کی ناکامیوں ، نا اہلیوں ، کرپشن کے ثبوت عدالت میں ثابت کئے جا سکیں۔ میڈیا دو دھاری تلوار کی طرح اتنا پاورفل ہوچکا ہے کے کسی بھی شخصیت کا پوسٹمارٹم کر کے اس کی شخصیت کے تصور کو زمین بوس کر دیتا ہے اور اس کو ایک ہتھیار کے طور پر آج کل استعمال کیا جا رہا ہے ،ٹاک شوزکے علاوہ سوشل میڈیا تیزترین، موثر ترین ، کمیونیکیشن کاذریعہ ہے۔ ہر شحص وٹس ایپ، فیس بک ایس ایم ایس اور ٹویٹر کا استعمال کر رہا ہے اور لمحوں میں اپنی آپ بیتی سنا دیتا ہے۔ جیسا کے ترکی کے صدر طیب اردوان نے ما ضی میں اس کو اپنے خلاف فوجی بغاوت کے دوران بر وقت استعمال کر کے اپنے اقدار کو فو جی انقلاب سے بچا لیا تھا ۔ آج کے اس دور میں میڈیا میں کمرشلزم اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ چند اینکر حضرات لاکھوں میں ماہانہ تنخواہ اور مختلف ملکوں کے دورے اور اضافی پر کشش مراعات کے طفیل پر کشش لائف سٹائل گزار رہے ہیں،ان کا معیار زندگی اور پی آر شاید پاکستان کے ٹونٹی گریڈ کے آفیسر کو بھی شاید ہی حاصل ہوں ۔ان کے سامنے ،وزارا ،بڑی سیاسی ہستیاں بھی دو زانو نہیں ، تو با ادب ،با ملاحظہ ہوشیارہو کر بیٹھتے ہیں اور ان کی سنجیدگی دیدنی ہوتی ہے ایسے جیسے کسی امتحان میں فیل نہ ہو جائیں اور اینکر صاحبان کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ معزز مہمان ان سے کہیں بازی نہ لے جائیں اس لئے پہ در پہ سوالوں سے ان کی طبیعت صاف کر نے کا اہتمام کیا جاتا ہے ایسے ہی جیسے شکار اور شکاری میںجھپٹنا، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا کا منظر فلمایا جا رہا ہو۔ ہمارے عوام بھی ٹاک شوز میں کسی سروے یا پول یا جا مع تجزیاتی رپورٹ کو بوجھل دل ہی سے برداشت کر تے ہیں یا ان کو ان کی سچائی پر یقین نہیں ہوتا، اس لئے وہ بھی نوک جھونک میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں راقم کویہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ٹاک شوز تھنک ٹینک کی بجائے ایمپٹی ٹینک کا رول تو نہیں ادا کر رہے، جو صرف پیٹنے کے کام آتا ہے اور شور زیادہ پیدا ہوتا ہے ۔اتنے زیادہ ٹاک شوز کو دیکھ کر تو بعض اوقات سرکس کا گماںہونے لگتا ہے۔