نظریاتی سیاست‘ صحافت اور برداشت کا مادہ ختم ہو رہا ہے: گورنر پنجاب
لاہور (نیوز رپورٹر) آج ہمارے ہاں نظریاتی صحافت کے ساتھ ساتھ تحمل وبرداشت کا مادہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں نہ بدلیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ رئوف طاہر ایک درویش انسان تھے۔ ان خیالات کا اظہار گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں ممتاز صحافی ‘ تجزیہ نگار اور کالم نویس رئوف طاہر کی وفات پر اظہار تعزیت اور مرحوم کی حیات و خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ریفرنس کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ تعزیتی ریفرنس کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ قاری خالد محمود نے تلاوت سید محمد کلیم نے بارگاہ رسالتؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیے۔گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا کہ ہمارے ہاں نظریاتی سیاست تو ختم ہوتی جا رہی ہے اس کے ساتھ برداشت کا مادہ بھی ہم سے ختم ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی۔ اختلاف رائے کو دشمنی میں نہیں بدلنا چاہئے۔ ہمیں اپنی کمزوریاں اور مسائل چھپانے کے بجائے ان کا اظہار کرکے ان پر قابو پانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں اظہارِ آزادیٔ رائے کی آڑ میں کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری اس طرح کی جا تی ہے کہ مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا جاتا ہے، یہ آزادیٔ اظہار رائے نہیں ہے انتہائی غلط فعل ہے جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ رئوف طاہر سے میری رفاقت کئی برسوں پر محیط رہی ۔ رئوف طاہر کو اختلاف کا طریقہ اور اسکے اظہار کا سلیقہ آتا تھا۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ میرا رئوف طاہر سے تعلق انچاس برس کا تھا، 1971-72ء سے شروع ہونیوالا تعلق تادم مرگ قائم رہا۔ رئوف طاہر عزم وحوصلے کا پیکر تھے۔ خالد محمود نے کہاکہ رئوف طاہر کا مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے آ جانے کے بعد ٹرسٹ کو ایک نئی پہچان ملی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔جمیل اطہر نے کہا کہ میں نے رئوف طاہر کو میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران جدہ کے سرور پیلس میں دیکھا ، ہر شام ہونیوالی محفلوں میں قصیدہ خواں تعریفوں کے پل باندھتے تھے لیکن رئوف طاہر خوشامدانہ الفاظ سے نا آشنا تھے۔ ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے کہا کہ رئوف طاہر کمیٹڈ انسان تھے، وہ اپنے نظریات کسی پر مسلط نہیںکرتے تھے۔ سلمان غنی نے کہا کہ جو اس دنیا میں آیا اس نے جانا ہے زندگی کا سفر موت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ عطاء الرحمن نے کہا کہ رئوف طاہر بہت ہی متحرک شخص تھا۔ وہ اپنے نظریات پر پختگی سے تادم مرگ قائم رہا۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کہا کہ رئوف طاہر نے نظریاتی اور بامقصد صحافت کی۔ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کہا کہ ماضی کی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں معلومات کا خزینہ اپنے دل و دماغ میں رکھتے تھے، میاں حبیب اللہ نے کہا کہ رؤف طاہر کا حکمران طبقہ سے بڑا تعلق رہا لیکن انہوں نے کبھی مالی منفعت حاصل نہیں کی۔ سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود نے کہا کہ رئوف طاہر منافقت اور دوغلے پن سے پاک تھا۔ ذکر اللہ مجاہد نے کہا کہ رئوف طاہر قلم کی حرمت کے پاسبان تھے۔ان کو صحافت کا درویش کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔مرحوم کے صاحبزادے آصف رئوف نے کہا کہ میرے والد نے ہماری تربیت اس نہج پر کی کہ ہم سچے مسلمان اور پاکستانی بنیں ۔ انہیں اسلام اور پاکستان سے عشق تھا، گھریلو زندگی میں وہ ہمارے ساتھ بڑے شفیقانہ انداز میں پیش آتے تھے۔ شاہد رشید نے کہا کہ رئوف طاہر کی اسلام ، پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے گہری وابستگی رہی اور ان کی صحافت کا مرکز ومحور بھی یہی تینوں باتیں رہیں ۔پروگرام میں سیکرٹری مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ تاثیر مصطفی، مرحوم کے صاحبزادے کاشف رئوف، حامد ولید، پیر نو بہار شاہ اور صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ محسن فارانی اور شہباز انور خان نے رئوف طاہر کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا جبکہ ڈاکٹر فیاض رانجھا نے مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعا کروائی۔