,,پنج لَکھیئے،،

نعیم بخاری خبروں میں اِن رہتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں لیکن یوں لگتا ہے وہ پیشے کے اعتبار سے ’میڈیامین ‘ بلکہ سراپا میڈیا ہیں۔جب الیکٹرانک میڈیا صرف پی ٹی وی پر مشتمل ہوتا تھا وہ تب سے اس میں ہیں۔ ایک نسل بلکہ کئی’’ نسلیں‘‘ اُنہیں مسکراتے اور مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے دیکھتی جوان ہوئی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نعیم بخاری اب بھی جوان ہیں سمارٹ ہیں۔ بات کرنے کا سلیقہ آتاہے۔ وہ پاکستان میںبسنے والے شہریوں جس میں مردو زن کی کوئی قید نہیں کے فیورٹ رہے ہیں بلکہ ہاٹ فیورٹ رہے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوںنے ایک سیاسی پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی ہے لیکن پھر بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے ناظریں چُھپ چھُپ کر اُن سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اُنہیںاُردو اور انگریزی پر ملکہ حاصل ہے۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ اُن کی پہلی زوجہ ملکہ پکھراج کی بیٹی تھیں بلکہ ان کی تعلیم پر اُن کے والدین کی طرف سے کی گئی محنت ہے اور وہ ماحول ہے جو اُنہیںملا۔ گویا اُردو، انگریزی کے ساتھ پنجابی زبان کا تڑکا بھی وہ خوب لگاتے ہیں۔ جب تک وہ پی ٹی وی کے چیئرمین نہیں بنے تھے لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ صرف تڑکا ہی لگاتے ہیں اب انہوںنے جانا کہ نعیم بخاری ’رگڑا‘ بھی خوب لگاتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں ’’دیو رگڑا اینہاں نوں دیو رگڑا‘‘ جیسی شاعری پسند رہی ہے۔ اور اب موقع ملنے پر وہ اسے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ نعیم بخاری نے چیئرمین کا منصب سنبھالتے ہی بعض ایسے کنٹریکٹ ملازمین جو لاکھوں میں تنخواہ لے رہے تھے ،کو یہ کہہ کر فارغ کردیا ہے کہ ہمیں ’پنج لَکھیئے‘ (پانچ لاکھ تک تنخواہ لینے والے) نہیں چاہئیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جب وہ پانچ لاکھ والا کوئی کام نہیں کررہے تو پانچ لاکھ کیوں دیئے جائیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں صرف پانچ لاکھ تنخواہ والے ہی بُرے لگتے ہیں لیکن انہوںنے ایک آدھ ’بارہ لکھیئے‘ کو بھی فارغ کروا کر یہ ثابت کردیا کہ پانچ لاکھ والا ان پرمحض الزام ہے۔ نعیم بخاری نے ایک انٹر ویو میں بتابھی دیا ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ تنخواہ ساڑھے تین لاکھ ہوگی۔ لیکن پھر بھی لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے ’یو ٹرن‘ لے لیا تو ہوسکتا ہے بات دو دو لاکھ تک پہنچ جائے۔ نعیم بخاری نے یہ بھی عندیہ دیا کہ سرکاری ٹی وی کے لئے بھرتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کیونکر نہیںہو سکتیں۔ ظاہر ہے اگر ایف پی ایس سی کے ذریعے بھرتیاں ہوئیں تو پھر مامے ، چاچے، بھتیجے نہ تو بھرتی ہوں گے نہ ہی اُن کی سفارشیں چلیں گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج تک پی ٹی وی میں جو بھرتیاں ہوئیں اس پر میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جو لوگ باقاعدہ آئینی طریقے سے امتحان ، انٹر ویو پاس کرآئے اُن میں بہترین لوگ موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں کلچر ہی ختم ہوگیا ہے کہ کسی محکمے میںکام کرنے والوں میں سے تجربہ کار اور سینیئر ترین لوگوں کو ادارے کی باگ ڈور تھمائی جائے۔ اسلم اظہر جیسے لوگوں کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔یوں لگتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں اور انہیں اس امر کی چنداں فکر نہیں ہوتی کہ ان کا نام احترام سے لیا جائے۔ بلکہ وہ تو کہتے ہیں وہ جو کچھ بھی کرتے رہے اُن کا نام ہی نہ لیا جائے۔ نام لیا جائے تو وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف، شفافیت، ٹیلنٹ اور اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اس معاشرے سے بہتری کی توقع نہیںرکھی جاسکتی۔ جہاں غریب اور پسے ہوئے طبقوں کو روٹی کے لالے پڑ جائیں اور بے یقینی کے سائے انہیں اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیں وہاں خدانخواستہ اگر اشرافیہ یہ سمجھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ غربت، افلاس اور ناانصافی ملکوں اور اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔لہٰذا ہر کسی کو اپنی اپنی جگہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ کسی ادارے کاسربراہ ایمانداراور اصولوں کی پاسداری کرنے والا ہو تو وہ ادارے اور اس کی کارکردگی کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ خالی باتوں اور نعروں کی ترکاری بنانے سے بھوک نہیں مٹتی۔ عملی طور پر کام ہوتے دکھائی دینے چاہئیں اور ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہونا چاہئے۔ اگر بہتری کی بجائے مزید بدحالی کی طرف سفر شروع ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے اس سفرکا خاتمہ باالخیر نہیں ہے۔ لہٰذا ایک سرکاری ادارے کی حد تک جہاں جناب نعیم بخاری کو تعینات کیاگیا ہے یہ اُمید رکھی جانی چاہئے کہ وہ دل سے ادارے کو بہتر کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں جو باتیں انہوں نے کی ہیں اور جس عزم کا اظہار کیا ہے دیکھیں وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ کلچر بھی سرائیت کرچکا ہے کہ کوئی کام کا بندہ ہاتھ آہی جائے تو اُسے بھی سائیڈ پر لگانے کے لئے لابیاںسرگرم ہوجاتی ہیں۔ دیکھتے ہیں پانچ لکھیوں اور دیگر’لکھیوں‘ کے خلاف کارروائیاں کرکے وہ کس حد تک سُبک گام رہتے ہیں۔ ہماری نسلیں بادشاہوں، وزیروں اور نو لکھے ہار کی کہانیاں سنتے جوان ہوئی ہیں۔ اب نولکھیوں اور بارہ لکھیوں کو دیکھ بھی رہی ہیں۔ لاکھوں میں تنخواہیں دینے میں کوئی عیب نہیں اگر ادارہ کروڑوں اور اربوں کما رہا ہو۔ تنخواہیں لاکھوں میں ہوں اور ادارے خسارے میںجارہے ہوں یا تنخواہوں سے کم کمارہے ہوں تو پھر بات نہیں بنتی۔ یہ قوم سٹیل مل جیسا ادارہ کھاگئی۔ پی آئی اے ڈانواں ڈول ہے۔ ایئر مارشل ارشدمحمود ملک اپنے تئیں اُسے سنبھالا دینے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے اُنہیںبھی اپنے ادارے کے اندراور باہر اچھی خاصی ’مزاحمت‘ کاسامنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے بنتے ہوئے سالوں لگتے ہیں لیکن اُنہیں تباہ کرنے والے مہینوں اور دنوں میں اس کی حالت غیر کردیتے ہیں۔ موجودہ وفاقی وزیر ریلوے جناب اعظم خان سواتی نے پاکستان ریلوے کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بھی ’تراہ‘ نکال دینے والی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے اداروں کی بحالی کا کام سونپا جائے جو میرٹ اور شفافیت کو یقینی بناسکیں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کو کامیابی کی ڈگر پر گامزن کرسکیں۔