فخرو بھائی’ فخر پاکستان تھے طویل عمر پائی عزت و افتخار سے جئے اور پرشکوہ خاموشی اور احترام سے رخصت ہوئے انہوں یہ ثابت کر دکھایا کہ بدترین حالات میں مادر وطن کی خدمت کیسے کی جاتی ہے۔ بوہری امام سیدنا برہان الدین کے پیروکار اور بے ریا مرید باصفا تھے 92 برس جئے سربلند اور سرخرو رہے اصولوں کی پاسداری میں اقتدار کو ہمیشہ ٹھوکروں پر رکھا۔ بارہا مستعفی ہوئے جب بھی بحرانوں میں پاکستان کو غیرجانبدار اور دلیر منتظم قانون دان کی ضرورت پڑی تو کیا زرداری کیا نواز شریف تمام مسلمہ شاہ دماغ دیانت ان کی چوکھٹ پر ڈھیر ہوئے دکھ اس بات کا ہے کہ سلام وداع کے لئے ذاتی طور پر کراچی حاضر نہ ہو سکا کہ اپنے پیارے عمران خان صاحب کے دور نا پرساں میں ڈھلتی عمر کے ساتھ فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہا ہوں۔ پیشہ ور قاتلوں کے گروہ تعاقب میں ہیں ان حالات میں کالم کیا لکھتا فخرو بھائی پر 1 اگست 2013کو معاصر روز نامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والا 7 برس قدیم کالم مل گیا باکل تازہ محسوس ہوتاہے جوں کا توں پیش خدمت ہے‘‘ ’’ وہی ہواجس کا ڈر تھا۔
ہمارے پیارے فخرو بھائی پانچویں بار بھی از خود مستعفی ہو گئے۔ لیکن اپنے فرائض منصبی پورے کرنے کے بعد رخصت ہوئے ہیں۔ قوم کو بیچ منجدھار نہیں چھوڑا۔ جس کے لیے بعض عناصر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا کہ عام انتخابات سے پہلے ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ سدا کے جذباتی فخرو بھائی مشتعل ہوکر مستعفی ہو جائیں اور عام انتخابات غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو جائیں۔ لیکن نرم و گرم چشیدہ فخرو بھائی بھی اس کھیل کو سمجھ چکے تھے۔ اس لیے ایسی تمام سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹے رہے۔جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے استعفیٰ میں کہا تھا کہ ارکان پارلیمان اور قوم کے اصرار پر میں نے یہ منصب قبول کیا تھا جس میں میری خواہش شامل نہیں تھی، اب جب کہ عام انتخابات ہو چکے ہیں، پہلی بار آئینی طریق کار کے مطابق انتقال اقتدار کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں، نئی پارلیمان کی تشکیل ہو چکی ہے۔
میری مخلصانہ رائے میں یہ نومنتخب پارلیمان کا حق ہے کہ آئینی طریق کار کے مطابق باہمی صلاح مشورے سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کریں۔ جسے 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد لیے مناسب وقت مل سکے۔دل پرہاتھ رکھ کر سوچیے 22 کروڑ میں کتنے ہیں جو اس طرح مفت ہاتھ آئے ہوئے اختیار اور اقتدار کو ٹھوکر مار سکیں، ایک نہیں پانچویں بار از خود مستعفی ہونے کا ریکارڈ تو شاید صرف فخرو بھائی نے قائم کیا ہے! واہ فخرو بھائی! آپ نے بھی کیا کمال کر دیا ہے نہ پارسائی کا دعویٰ، نہ قوت، اختیار اور اقتدار سے بچنے کی ڈرامے بازیاں لیکن جب بھی موقع ملا ، آپ نے تارک الدنیا درویش کی خو نہ بدلی۔فخرو بھائی نے تو ایک بار پھر اقتدار اور اختیار کے دیوانوں کو قناعت کا درس دیا ہے جو دعووں کی حد تک اْمیدواری کو حرام اور اقتدار کی خواہش کو ناجائز قرار دینے کے باوجود اس کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ہر جائز نا جائز ہتھکنڈے سے گریز نہیں کرتے اور ساتھ ساتھ قال قال رسول اللہ ﷺکا ورد بھی کیے جاتے ہیں۔ ان منافقین کے منہ پر فخرو بھائی نے زور دار طمانچہ رسید کیا اور خاموشی سے رخصت ہو گئے۔
فخرو بھائی نے استعفیٰ میں اپنی خدمات کے بلند بانگ دعوے نہیں کیے لیکن عام انتخابات کے دوران قوم کی مجموعی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے پہلی بار انکشاف کیا ہے کہ انھیں ذاتی طور پر دھمکیاں دی جاتی رہیں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا لیکن میں خاموشی سے عام انتخابات کو رکوانے کے لے سرگرم عمل قوتوں کے سامنے کھڑا سینہ سپر رہا۔
فخر الدین جی ابراہیم تمام تر اصرار کے باوجود چیف الیکشن کمشنر بننے کے لیے آمادہ نہیں تھے، اس لیے صدر آصف علی زرداری کو ذاتی طور پر ان کے پیر و مرشد، سیدنا برہان الدین سے درخواست کرنا پڑی تھی لیکن اب کی بار فخرو بھائی کا استعفیٰ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ وہ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دن زائد بھی اپنے منصب پر فائز نہیں رہنا چاہتے تھے۔فخرو بھائی اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت خوش و خرم رخصت ہوئے کہ عام انتخابات کے بعد عضو معطل بن کر اپنے منصب سے چمٹے رہنا اْن کو کسی طور پر گوارا نہیں تھا۔ آئینی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے انھوں نے عام انتخابات کو صاف شفاف اور پر امن بنانے کے لیے اپنی آخری اننگ پیرانہ سالی کے باوجود بڑے طمطراق سے کھیلی۔
اگرچہ الیکشن کمیشن میں چاروں صوبائی حکومتوں کے نامزد کردہ ارکان ایک لمحے کے لیے بھی اکل کھرے اور سادہ اطوار فخرو بھائی سے ہم آہنگ نہ ہو سکے کہ وہ آئین اور قانون کے بجائے اپنے نامزد کنندگان کے زیادہ وفادار تھے اور انھوں نے ہر مرحلے پر حق وفاداری کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔بہر حال پیارے فخرو بھائی کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اس راز سے پردہ اْٹھانا ہو گا، اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ بار بار اور پر زور اصرار کے باوجود کراچی شہر میں پولنگ بوتھوں پر فوج کی تعیناتی کیوں نہیں ہو سکی تھی جس کی وجہ سے شہر نگاراں کے باسی آزادانہ ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے۔ صرف ڈاکٹر عارف علوی اپنے بے مثال حوصلے اور حکمت عملی سے کامیابی کی منزل پا سکے جب کہ ساری دنیا میں جہاد برپا کرنے کے دعوے اپنے ووٹوں کی حفاظت کرنے اور بزعم خود مقامی ’طاغوت‘ کا مقابلہ کرنے کے بجائے چڑھتی دوپہر میں بھاگ گئے، بائیکاٹ کر گئے کہ انھیں صرف عالمی طاغوت کا مقابلہ کرنے کا کاروبار مرغوب اور پسند ہے۔فخرو بھائی سے اس کالم نگار کو زیادہ راہ و رسم نہیں رہی کہ وہ اپنی ذات میں گم رہنے والے بزرگ تھے۔ اْن سے آخری ملاقات یکم، دو مئی 2013 کو کراچی جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں ہوئی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ فرائض مکمل ہونے کے بعد ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا واپس گھر چلا جائوں گا۔
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024