جنرل قاسم سلمانی کی شہادت
عامر شہزادواشنگٹن نے آخر وہی کیا کہ جس سے ایک بار پھر دنیا کا امن برباد ہونے کا اندیشہ پیدا ہوچکا ہے۔ واشنگٹن نے ایرانی جنرل قاسم سلمانی کو بغداد میں ایک مومومنٹ کے دوران ان کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید کردیا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے خطہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا ہے۔ امریکہ بہادر جب چاہے جسے چاہے اپنے مزائل سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ کسی ملک کے جرنیل پر حملہ اس ملک کی آزادی کے حملے کے مترادف ہے۔ بظاہر اتنے بڑے سانحہ پر بھی عالم اسلام کو کوئی دکھ نہیں ہوا۔ عرب ممالک کو تو گویا امریکہ نوازی کا سانپ سونگ گیا ہو ان کی خاموشی سانحہ کربلا کے وقت کوفی خاموشی سے زیادہ خوفناک ہے۔ ہم نے بطور مسلمان نہ کل تاریخ سے اپنی شکست کا سبق سیکھا اور نہ آج سیکھنے کو تیار ہیں۔ بغداد میں نیٹو فورسز کے دخول کے بعد جو حال بغداد کا کیا گیا اور جس طرح عراقی صدر صدام حسین کو مقدمہ چلا کر عید کے روز پھانسی پر لٹکایا گیا اگر اس وقت مسلم اُمہ یہ عمل نہ ہونے دیتی تو آج امریکہ کو ایک مسلم ریاست کے جرنیل کو یوں شہید کرنے کا حوصلہ نہ ملتا۔ امریکہ کو یہ جرأت دینے والے ہم خود ہیں مسلم اُمہ میں پایا جانے والا انتشار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کی یکسر خاموشی اس بات کا غماز ہے کہ ایران کے ساتھ دینے بجائے وہ امریکہ نوازی پر زیادہ مطمئن ہیں۔ ابھی تک پاکستان بھی شش و پنج کے مدار سے باہر نہیں نکلا۔ البتہ جو پیغام دفتر خارجہ نے دیا ہے اس کے مطابق پاکستان نا کسی کی جنگ میں شریک ہوگا اور نہ کسی کو اپنی زمین استعمال کرنے دیگا۔ بقول سیکریٹری خارجہ کے پاکستان امن کا ساتھی ہے انتشار کا نہیں۔ امن کے ساتھی کا عندیہ یہ ایسے وقت میں جب ایک صدیوں سے ہمسایہ اسلامی ملک کے جرنیل کو تمام تر عالمی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہشت کا نیا باب رقم کرتے ہوئے شہید کردیا جاتا ہے اور پاکستان ابھی تک یہ طے نہیں کرپارہا ہے کہ اسے پیغام کیا دینا چاہیے۔ رہا سوال جہاں تک زمین کے استعمال نہ کرنے دینے کا تو یہ خدشہ پاکستان کو ایران کی جانب سے تو ہے نہیں یقینا یہ خطرہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے لاحق ہے۔ ایسی کسی بھی صورتحال میں امریکہ پاکستان کے فوجی اڈے استعمال کرنے کی دھمکی امیز استدعا کرسکتا ہے۔ ایسے ہی جیسے اس نے عراق کو پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ واشنگٹن نے کھلے عام کہا ہے کہ اگر بغداد نے امریکی فوج کو نکالا تو ایران سے بھی سخت پابندیاں لگائیں گے۔ ان تمام حالات میں مسلم اُمہ ’’ہنوز دلی دوراست‘‘کے تماشے کے آخری سین کا انتظار کررہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم پہلے ہی یکجہتی کے فقدان کا شکار ہے۔ اب جنرل سلمانی کے قتل سے مزید عدم استحکام بڑھے گا۔ 157 اسلامی ممالک کسی نئے تماشے کے انتظارمیں ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان حالات میں اسلامی ممالک سر جوڑ لیتے۔ آج اگر ایران اس دہشتگردی کا نشانہ بنا ہے تو کل کسی اور ملک کی باری بھی آسکتی ہے۔ ایرانی جنرل کی بہادر بیٹی نے والد کی شہادت کو اسرائیل اور برے دنوں سے مماثل کیا ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ مغربی دنیا میں روحانی مقامات کو ہی ثقافتی مقامات مانا جاتا ہے صدر ٹرمپ کے پیغام کے مطابق اگر امریکہ ایران کے ثقافتی مقامات پر حملہ کرتا ہے تو گویا یہ روحانی مقدس مقامات پر حملے ہونگے۔ تو کیا مسلم اُمہ اور بالخصوص پاکستان روحانی مقدس مقامات پر حملے برداشت کرپائے گا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹرمپ کے ایرانی ثقافتی مقامات پر حملے کے بیان کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جان بوجھ کر شہری املاک، مذہبی، ثقافتی اور روحانی مقامات کو نشانہ بنانا ناصرف غلط ہے بلکہ جرم بھی۔ امریکی صدر دھمکیوں سے گریز کرے۔ مشرق وسطی کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان سٹاک مارکیٹ میں 170 ارب ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ خطہ کسی بھی طور جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس جنگ کو روکنا پڑے گا۔ ان حالات میں ریاض میں سات افریکی ممالک کے نئے اتحاد کا اعلان بھی ہوا جس کی میزبانی کا شرف سعودی عرب نے حاصل کیا جو صورتحال مسلم اُمہ کی اس وقت ہے بقول شخصے۔
اَساں آپے رسے وٹے تے آپے لے لیا پھا
سولی وی چڑھ کے ویکھیا ساڈے نہ مکے ساں
جنرل سلیمانی ایک بااصول سمجھدار فوجی تھے۔ ان کی معاملہ فہمی کی بدولت ایران کی فورسز محفوظ ہاتھوں میں تھی ان کی شہادت سے یقینا ایک بڑا خلاء پیدا ہوچکا ہے مگر اس کے تناظر میں جو حالات پیدا ہورہے ہیں وہ یقینا خطرے سے خالی نہیں۔ ہر طرف مسلمان تفریق و انتشار کا شکار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم اُمہ مسلکی تفریق سے نکل کر اتحاد کی جانب بڑھے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے۔