مشرقِ وسطیٰ بڑے بُرے طریقے سے جنگ کی لپیٹ میں آتا نظر آ رہا تھا۔ امریکہ نے عالمی قوانین کی پرواہ کئے بغیر عراق میں ایرانیِ مہمان جرنیل قاسم سلیمانی کو راکٹ برسا کر شہید کر دیا۔ اس پر ایران کی طرف سے شدید ردِ عمل آنا ایک فطری امر تھا۔ امریکہ نے ایک تو بلنڈر کیا دوسرے بڑی رعونت سے کہا کہ وہ مزید ایسے ٹارگٹ حاصل کرے گا۔ایران کی حقیقی اور زبانی توپوں کا رُخ بھی امریکہ کی طرف ہو گیا ۔اس نے بھی اس سانحہ کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے باور کرایا کہ وقت اور حملے کے مقام کا تعین وہ خود کرے گا۔ پاکستان نے بھی بھارت کے کو26فروری کی جارحیت پر ایسی ہی وارننگ دی تھی۔ایران کی طرف سے جنرل سلیمانی کے قتل پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔اس کے بعد ہی اسکی طرف سے کسی انتقامی کارروائی کا امکان تھا۔ یہ تین دن امریکہ کے لیے بگاڑ کو سلجھاؤ کی طرف لانے کے لیے کافی تھے مگر اس کی رعونت اشتعال اور دھمکیوں میں اضافہ ہوتا گیااور پھر تیسرے دن وہی کچھ دنیا نے دیکھا جس کا ایران نے اعلان کیا تھا۔ایران کی طرف سے ایک ایک قدم پوری احتیاط اور تیاری سے سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا مگر یوکرائنی جہاز کی تباہی انتہا ئی المناک ہے جس میں176افرادموت کی لکیر پار کر گئے۔ ایران کی طرف سے اپنے حملے تک تمام اندرونی و بیرونی پروازیں معطل کر دینی چاہئیں تھیں۔26فروری کو بھارت نے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائٹر جہازوں سے پے لوڈ گرایا اور راہِ فرار اختیار کی تو پاکستان نے بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے فوری طور پر فضائی سروسز بند کر دی تھیں اور پھر اگلے ہی روز بدلہ بھی لے لیا تھا،ایسا بدلہ کہ بھارت اگلی نسلوں کو نصاب میں شامل کرکے داستانِ ہزیمت سنائے گا۔ ایران سے حملوں سے قبل فضائی حدود بندنہ کرنے کی بے احتیاطی ضرور ہوئی جس سے یوکرائنی جہاز مسافروں سمیت فضا میں ریزہ ریزہ ہوگیا۔ایران کی طرف سے اس غلطی پر معذرت کی گئی ہے یقینا ایرانی فوج اس کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرے گی۔ تاہم ایران کا اگلا اقدام فکرو دانش کااظہار ہے۔رپورٹس کے مطابق عراقی حدود میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے سے قبل عراقی حکومت کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ عراق نے یہ اطلاع امریکہ کو پہنچا دی جس نے ان اڈوں سے اپنے فوجی دوسری جگہ منتقل کر دیئے امریکہ کا یہ اقدام کشیدگی کی فضا کو ڈی فیوز کرنے کا سبب بنا۔امریکہ کے خالی مستقر معمولی نقصان سے ضرور دو چار ہوئے جبکہ امریکہ کے بقول ہلاکتیں بالکل نہیں ہوئیں یا پھر کم ہوئیں البتہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں میں80امریکی مارے گئے۔ایران کے حملوں کے حوالے سے متعدد سوالات بڑے اہم ہیں۔ ایران کے راکٹ درست نشانے پر لگے اس کے ساتھ ہی ایک نے یوکرائنی جہاز کو ہٹ کر دیا۔ یہ کس طرح بھٹک گیا؟ امریکہ کا میزائل اور راکٹ کاؤنٹریعنی اینٹی سسٹم کہاں تھا؟ ایرانی راکٹ کیوں مار نہیں گرائے گئے؟کیا ایران کے پاس امریکہ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے امریکہ کا اینٹی میزائل سسٹم ناکارہ بنا دیا گیا۔یا پھر امریکہ نے ایران کو غصہ ٹھنڈا کرنے کا موقع دیا۔ اس کی تائید امریکہ کے ایرانی حملے کے بعد کے رویے سے ہوتی ہے۔ امریکہ کی اشتعال انگیزی، دھمکیوں اور جوابی کارروائی کے دعوئوں کی ہوا نکل گئی۔
امریکہ ایران کشیدگی کے عروج پر پہنچنے کے دوران خطے کے ممالک کا رویہ بھی مثبت رہا۔ ایران کی طرف سے کہا گیا کہ جس ملک نے امریکہ کو اڈے دیئے یا اپنی سرزمین حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی اس پر بھی حملے کریں گے۔عالمی سطح پر بھی چین ،روس،حتیٰ کہ فرانس کی طرف سے بھی امریکی حملے کی حمایت نہیں کی گئی۔ پاکستان اور خطے کے ممالک پر ایران کی دھمکی کامیرے خیال میں کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستان پہلے ہی ایسی کسی صورت میں ملوث ہونے سے انکار کرتا آیا ہے۔ وزیر اعظم کے ایسے بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں کسی کی جنگ کا حصہ نہ بننے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے۔امریکہ کی عراق میں ایرانی جنرل کے خلاف کارروائی کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر زور دار طریقے سے پاکستان کی غیر جانبداری کا اعلان کیا۔اُدھر عرب ممالک نے امریکی حملے کی حمایت کی اور نہ ہی امریکہ کو اڈے دینے کی پیشکش کی تاہم کئی ممالک میں امریکی اڈے پہلے سے موجود اور زیرِ استعمال ہیں۔ ایران کی سوچ بچار کے ساتھ حملوں اور امریکہ کی ایرانی حملوں کے بعد جارحیت گریز پالیسی سے جنگ کے گہرے بادل چھٹ رہے ہیںاور جنگ کی چنگاری ماند پڑ رہی ہے جس کے شعلہ بننے سے پورے خطے بلکہ کرہِ ارض کاامن الاؤبن کر بھسم ہو سکتا تھا۔پاکستان کی بات امریکہ ایران اور سعودی عرب بھی سن رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عالمی سطح پر اس حوالے سے کردار ادا کرے کی پوزیشن رکھنے والے ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے رابطے کر رہے ہیں۔شاہ محمود قریشی تو شٹل ڈپلومیسی دورے پر روانہ ہو چکے ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ میںامن کی فضا استوار ہو سکتی ہے۔اوبامہ نے عالمی امن کے لیے کچھ حوصلہ افزا کام کئے۔فائیوپلس ون ممالک کا ایران کے ساتھ معاہدہ ہوا۔ ٹرمپ نے اپنے اکھڑ پن اورلاابالی طبیعت کے باعث اس معاہدے کی دھجیاں اڑا دیں۔جس کے بعد ایران پھر سے نیوکلیئر پروگرام کو آگے بڑھانے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی صرف بڑے ممالک ہی کے پاس کیوں ہو؟۔ انہوں نے یہ دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کی ہے تو کیا دوسرے ممالک کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔اگر حق حاصل ہے تو ایران کیوں اپنا دفاع ناقابلِ تسخیر نہ بنائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024