متحدہ کے کنوینئر کا وزارت چھوڑنے کا اعلان‘ حکومت منانے کیلئے متحرک‘ اخترمینگل کے تحفظات کا بھی عندیہ
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے احتجاجاً وزارت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ گزشتہ روز بہادر آباد کراچی میں ایم کیو ایم کے عارضی مرکز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا اب کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے تاہم حکومت سے تعاون مسلسل جاری رہے گا اور ایم کیو ایم حکومت کا حصہ بھی رہے گی جس کا کراچی کے شہریوں پر اچھا تاثر ہوگا۔ انکے بقول انکے کابینہ میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ ہم نے وزارتوں کیلئے کچھ نام دیئے تھے جس میں میرا نام شامل نہیں تھا۔ ہم نے اس وقت جمہوریت کے ساتھ تعاون کیا۔ ہم نے حکومت کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور اپنا وعدہ نبھایا ہے تاہم 17, 16 ماہ گزرنے کے بعد بھی کسی ایک نکتے پر پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں ہم کوئی بڑی یونیورسٹی نہیں بنا سکے‘ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام بھی بدستور مسائل کا شکار ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا اب وزارت میں بیٹھنا بہت سے سوالات کو جنم دیگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انکی جگہ کسی اور کو کابینہ میں بھیجنے کا فیصلہ رابطہ کمیٹی کریگی۔ انکے بقول حکومت میں بیٹھنا اور ڈیڑھ سال تک انتظار کرنا خدشات کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے تو حکومت کے ساتھ بھی کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ حکومت سے امید اب بھی بہت ہے مگر یقین نہیں آرہا۔ ہم ہر ملاقات میں کئے گئے معاہدے کی یاددہانی کراتے رہے۔ ہم پہلے تجربے کی کمی سمجھتے رہے جبکہ اب حکومت کی جانب سے سنجیدگی کی کمی نظر آرہی ہے۔
دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے گزشتہ روز ٹیلی فونک رابطہ کیا اور خالد مقبول صدیقی کے استعفے سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے گورنر کو متحدہ قیادت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ متحدہ کے تمام مطالبات جائز ہیں جو ہر صورت پورے کئے جائینگے۔ کراچی معاشی حب ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انکے بقول متحدہ ہماری بہترین اور بااعتماد اتحادی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی اپنی کورکمیٹی کا اجلاس 19 جنوری کو طلب کرلیا ہے۔ سردار اخترمینگل کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے اس اجلاس میں 6 نکاتی مطالبات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائیگا اور حکومتی دعوئوں پر پیش رفت سے متعلق بات چیت ہوگی۔ کورکمیٹی کے اس اجلاس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں تاہم اسے حکومت کی تن تنہاء تشکیل کیلئے عددی اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان انتخابی مہم کے دوران جہاں نئے پاکستان میں کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کے دعوے کرتے رہے وہیں وہ قوم کو یہ بھی باور کراتے رہے کہ وہ اقتدار کیلئے کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگیں گے اور اگر انکی پارٹی کو عددی اکثریت حاصل نہ ہوسکی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دینگے تاہم انتخابات کے بعد انہوں نے مرکز پنجاب اور بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان کی معاونت حاصل کرکے اکثریت حاصل کی‘ اس کیلئے انہیں وفاق میں آزاد ارکان کے علاوہ مسلم لیگ (ق)‘ ایم کیو ایم پاکستان‘ اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی‘ سندھ کے سیاسی اتحاد جی ڈی اے اور بلوچستان کے سیاسی اتحاد بی اے پی کی حمایت حاصل ہوئی۔ اسکے باوجود انہیں حکومت سازی کیلئے ہائوس میں محض چند ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوسکی۔ پنجاب میں ان کیلئے اور بھی مشکل صورتحال تھی جہاں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی تھی تاہم عمران خان آزاد ارکان کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرکے پنجاب میں بھی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے چنانچہ انہیں اسی تناظر میں وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں اپنی اتحادی جماعتوں کو وفاقی اور صوبائی کابینائوں میں بھی شامل کرنا پڑا اور انکے دوسرے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کا بھی وعدہ کرنا پڑا۔
یہ امر واقع ہے کہ جہاں جمہوریت مستحکم ہوتی ہے وہاں ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرلیتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں بدقسمتی سے اب تک جمہوریت اور جمہوری اقدار اتنی مستحکم نہیں ہوسکیں کہ ایک ووٹ کی اکثریت کے بل بوتے پر بھی حکومت کی آئینی میعاد پوری کی جاسکے۔ اس کیلئے حکومت کو اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملائے رکھنے کی خاطر انکے ہرجائز ناجائز مطالبے پر کان دھرنا اور انہیں خوش رکھنا پڑتا ہے۔ بے شک ہائوس کے اندر تبدیلی بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے اور اگر اپوزیشن بنچوں کو ہائوس میں عددی اکثریت حاصل ہو جائے تو وہ قائد ایوان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر پانسہ پلٹ سکتی ہے جبکہ اس سے جمہوریت کو بھی گزند نہیں پہنچتی اور پارلیمانی جمہوری نظام بحسن و خوبی چلتا رہتا ہے تاہم ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری اقدار پنپ نہیں پائیں اور حصول اقتدار یا کسی کو اقتدار سے نکالنے کیلئے ووٹ خریدنے اور کسی نہ کسی دبائو کے تحت سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے فائول گیم کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔
اس اخلاقی گراوٹ پر قابو پانے کیلئے اگرچہ آئین کی دفعہ 63‘ اے کے تحت پارٹی سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کسی رکن کی فلور کراسنگ پر اسکی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر سے رجوع کر سکتے ہیں‘ اسکے باوجود منتخب ارکان میں پیدا ہونیوالی اس اخلاقی برائی کا تدارک نہیں ہوسکا اور چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں حکومت مخالف سینٹروں کی خریدوفروخت کی بدترین مثالیں قائم ہوئیں جبکہ 1990ء کی اسمبلی میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی فلور کراسنگ کی بدولت ہی ناکام بنائی گئی تھی۔
حکمران پی ٹی آئی کے معاملہ میں صورتحال اس حوالے سے بھی گھمبیر ہے کہ یہ دوسری جماعتوں کی معاونت حاصل کرکے اقتدار میں آئی ہے۔ اگر وہ جماعتیں اپنے پارٹی فیصلہ کے تحت سرکاری بنچوں سے باہر آجائیں تو پی ٹی آئی کا اقتدار خطرے میں پڑ جائیگا جبکہ بحیثیت پارٹی کیا گیا کوئی فیصلہ فلورکراسنگ کی آئینی شق کی زد میں بھی نہیں آئیگا۔ پی ٹی آئی کیلئے اپنے اقتدار کے موجودہ 17 ماہ کے دوران متعدد مواقع پر اپنے اتحادیوں کی جانب سے ایسے خطرات لاحق ہوچکے ہیں اس لئے ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول کی جانب سے حکومت سے باہر آنے کا اعلان کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت کیلئے پیدا ہونیوالے ہر مشکل وقت کے دوران ایم کیو ایم کی قیادت اسے تلخ و ترش لہجے میں اپنے وعدے یاد دلاتی رہی ہے۔ دو ہفتے قبل تو ایم کیو ایم کے حکومت کے ساتھ کھچائو کے دوران پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کو یہ دانہ بھی ڈال دیا تھا کہ وہ حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دے اور سندھ میں اتنی ہی وزارتیں لے لے جتنی وفاق میں اسکے پاس ہیں۔ اسی طرح سردار اخترمینگل بھی متعدد مواقع پر حکومت کو آزمائش میں ڈال چکے ہیں جبکہ بعض مراحل میں مسلم لیگ (ق) اور سندھ کے گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس کی جانب سے بھی حکومت کو آنکھیں دکھائی جاتی رہی ہیں اور پھر حکومت سے کچھ مزید لے کر معاملات طے کئے جاتے رہے ہیں۔ اگر سیاسی سوداکاری کے اس ماحول میں حکومت کیلئے اپنے دو اتحادیوں کی جانب سے دوبارہ آزمائش شروع ہوتی نظر آرہی ہے جس میں دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی انہیں ہلہ شیری دے رہی ہیںتو یہ ہماری سیاست کا روایتی کھیل ہے جس کا بہرحال کوئی ’’زریں‘‘ اصول نہیں ہوتا۔ اگر اقتدار کی سیاست میں اصولوں کی پاسداری مقصود ہے تو پھر اقتدار اور اصولوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑیگا جبکہ اقتدار کی روایتی سیاست میں اصولوں کی پاسداری کی بات بے معنی ہوجاتی ہے۔
اگر اس تناظر میں پی ٹی آئی کی اب تک کی اقتدار کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی روایتی سیاست کی چادر میں ہی لپٹی ہوئی نظر آتی ہے جسے اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر بہرصورت اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور ان کا ہر مطالبہ بسروچشم قبول کرنا ہے۔ چنانچہ ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وزارت سے باہر آنے کے اعلان کے بعد حکمران پی ٹی آئی روایتی اقتداری سیاست ہی کو تھام کر متحرک ہوئی نظر آتی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے علاوہ وفاقی وزرا اسدعمر اور شفقت محمود بھی حکومتی اتحاد کو بچانے کیلئے متحرک ہو گئے ہیں جن کے ایم کیو ایم کی قیادت کے علاوہ جی ڈی اے‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے ساتھ بھی ازسرنو روابط شروع ہو گئے ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں یقیناً حکومتی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرکے حکومت کو لاحق خطرہ ٹال دیا جائیگا تاہم سوداکاری کی سیاست میں حکومت پر خطرے کی یہ تلوار لٹکتی ہی رہے گی جس میں اصولوں کی سیاست بھی باربار مات کھاتی رہے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے بقول ایم کیو ایم کے تمام مطالبات جائز ہیں تو انکے اقتدار کے 17 ماہ گزرنے پر بھی یہ جائز مطالبات اب تک کیوں پورے نہیں ہوسکے اور ایم کیو ایم کی قیادت کو باربار اپنے تحفظات کے اظہار کی کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اور اگر یہ کسی حکومتی اتحادی کی محض سیاسی سوداکاری ہے تو پھر اسے اصولی سیاست پر حاوی کرنے کی مجبوری کیونکر لاحق ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے حکمران پی ٹی آئی کو کوئی واضح لائن آف ایکشن لینی چاہیے۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے مطالبات جائز ہیں تو انہیں عملی جامہ پہنانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا جانا چاہیے اور اگر یہ محض سیاسی سوداکاری ہے تو اس پر اپنے اصول قربان نہیں ہونے دینے چاہئیں۔ جمہوریت کی عملداری میں ہائوس کے اندر تبدیلی میں یقیناً کوئی قباحت نہیں تاہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے جس سے سسٹم پر کسی قسم کی زد پڑنے کا اندیشہ ہو۔ جمہوریت تو درحقیقت جمہور کے ساتھ وابستہ ہے جسے مطمئن کرنا اور روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف دینا حکمرانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔