حکومت اور اپوزیشن باہم ’’ شیر و شکر‘‘ سیاسی منظر کی تبدیلی کا خدشہ

قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس دو روز کے وقفے کے بعد منعقد ہوئے تو جہاں پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’خوش گوار ‘‘ ماحول میں رابطے ہوئے وہاں ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی کے وزارت سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حکومت کی پریشانی دیدنی تھی ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت اپنے آپ کو دبائو میں محسوس کر رہی ہے بظاہر سیاسی منظر تبدیل ہونے کا کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے لیکن حکومت سہمی سہمی نظر آر ہی ہے پیر کو حکومت اپوزیشن کی مرضی سے 4گھنٹے تک اجلاس چلاتی رہی اس دوران ایوان حکومتی بنچوں سے یہ آواز سننے میں کہ’’ جائو رانا تنویر حسین سے پوچھ کے اج کی کرنا ہے ‘‘ حکومت اور اپوزیشن باہم ’’شیرو شکر ‘‘ نظر آئی سپیکر نے حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنے چیمبر میں بلوا لیا کافی دیر تک چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کے نئے ناموں پر اتفاق رائے کے لئے مشاور ت ہوتی رہی قبل ازیں سپیکر چیمبر ہونے والی مشاورت ’’نشستند ، گفتند و برخواستند‘‘ سے آگے بڑھ نہ سکی پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق ایوان میں تو آرہے ہیں لیکن وہ کوئی بات کرنے سے گریزاں ہیں قومی اسمبلی میں سندھ میں گیس کی لوڈ شیڈنگ پر پیپلز پارٹی ارکان اور وزیر توانائی عمر ایوب کے درمیان ایک بار پھر ’’ٹاکرا ‘‘ ہو گیا آگئے اور ایک دوسرے کو جھوٹاقرار دیدیا،دونوں اطراف سے سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔پیپلز پارٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ وزیر ایوان میں کھڑے ہوکر ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں۔
ڈائری